ایران میں پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپیں
18 ستمبر 2009ایران میں آج عوامی جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں پر پابندی کے باوجود اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی کے بے شمار حامیوں نے حکومتی حمایت سے یوم قدس کے موقع پر منعقد کردہ ریلی میں شرکت کی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے اس ریلی میں شامل حکومت کے خلاف نعرے لگانے والے دس افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔اطلاعات کے مطابق تہران کے شمال میں بھی اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی کے حامیوں اور پولیس کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں۔ ہزاروں افراد کے اس ریلی میں ممکنہ شرکت کے پیش نظر حکومت نے شہر میں پولیس کو خصوصی احکامات دے رکھے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ احمدی نژاد حکومت اور اپوزیشن کے حامیوں کے مابین اسرائیل کے خلاف نکالے گئےجلوس میں ہونے والے تصادم میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعتہ الوداع کو تمام مسلمان ممالک روایتی طور پر یوم قدس کے طور پر مناتے ہیں جس کا مقصد اسرائیل کی مذمت اور مقبوضہ فلسطینی علاقعں کی آزادی کے لئے سوچ کا اظہار ہے۔
آج کے بدامنی کے واقعات سے قبل ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای اور ملکی انتظامیہ نے اپوزیشن کو اسرائیل مخالف جلوسوں کو حکومت مخالف احتجاج کا رنگ دینے کے خلاف خبردار کیا تھا۔ ناکام صدارتی امیدوار موسوی اور مہدی کروبی نے ان جلسوں میں شرکت کا ارادہ تو ظاہر کیا تھا تاہم انہوں نے ایسا کیا نہیں۔
یوم قدس ہی کے موقع پر ملکی صدر محمود احمدی نژاد نے تہران یونیورسٹی میں اپنی تقریر ایک بار پھر یہودی قتل عام یعنی ہولوکاسٹ کو جھوٹ قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر ایسا واقعی ہوا بھی ہے تو یورپی ممالک اس کے ذمہ دار رہے ہیں اور انہی کو ہی اس کا خمیازہ بھی بھگتنا چاہئے نہ کہ فلسطینیوں کو۔ احمدی نژاد نے ماضی میں بہت متنازعہ ثابت ہونے والی اپنی کئی پیشگوئیوں کی طرح ایک بار پھر کہا: "اسرائیل کا وجود زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گا"۔
احمدی نژاد کے مغرب اور اسرائیل مخالف بیانات کی وجہ سے کئی ممالک ان سے ناراض ہیں۔ ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کی شدید تشویش میں ایسے بیانات کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ایران نے یکم اکتوبر کو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات کی حامی تو بھر چکا ہے تاہم وہ اپنی ایٹمی تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی کے خلاف بین الاقوامی برادری کی کوئی بھی دلیل سننے پر آمادہ نہیں ہے۔
رپورٹ: میرا جمال
ادارت: مقبول ملک