1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور سعودی عرب کشیدگی کم کریں، ایرانی نائب وزیر خارجہ

مقبول ملک25 جنوری 2016

ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو حالیہ ہفتوں کے دوران شدت اختیار کر جانے والی آپس کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بلاتاخیر اور ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں۔

https://p.dw.com/p/1HjJK
Symbolbild Iran Saudi Arabien 1024 x 576
تصویر: DW Montage

ایرانی دارالحکومت سے پیر پچیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عباس عراقچی نے آج تہران میں ایک ہوا بازی کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکومت ہر وہ ممکنہ قدم اٹھانے پر تیار ہے، جس کے ذریعے خطے کو زیادہ مستحکم اور محفوظ تر بنایا جا سکے۔ ایرانی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ تہران اور ریاض کے مابین کشیدگی کم کرنے سے دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے ان بڑے مسائل اور اہم چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی، جن کا خطے کو اس وقت سامنا ہے۔ عباس عراقچی نے کہا کہ فرقہ واریت دراصل وہ سب سے بڑا خطرہ ہے، جو فی زمانہ مشرق وسطیٰ اور خلیج کے خطے کی ریاستوں کو درپیش ہے۔
اس موقع پر عباس عراقچی نے صحافیوں کو بتایا کہ انتہا پسندانہ نظریات کے حامل دہشت گرد عناصر کے خلاف کامیاب جنگ اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ یہ دہشت گرد پوری دنیا کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب خطے کی دو حریف ریاستیں ہیں، جن کے مابین تعلقات گ‍زشتہ ماہ اس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے، جب سعودی عرب میں ایک اہم شیعہ رہنما آیت اللہ النمر کو دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد مشتعل ایرانی مظاہرین کے ایک بہت بڑے ہجوم نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا، جس کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
اس دوطرفہ کشیدگی کے پس منظر میں ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے آج دہشت گردی کے بین الاقوامی مسئلے کے بارے میں کہا، ’’ہم نے دیکھا ہے کہ اگر آپ ان (دہشت گردوں) کا مثال کے طور پر شام میں مقابلہ نہیں کریں گے، تو آپ کو ان کے خلاف یہی جنگ پیرس یا دیگر دارالحکومتوں میں لڑنا پڑے گی۔‘‘
انہوں نے م‍زید کہا، ’’ہمیں دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہی پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ اگر شام، عراق، یمن اور خطے کے دیگر علاقوں میں ان دہشت گردوں کا مقابلہ نہ کیا گیا، تو پھر اس کی قیمت ہم سب کو چکانا پڑے گی۔‘‘
سنی اکثریتی آبادی والا ملک سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی آبادی والا ایران دونوں ہی ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ دوسرا فریق مشرق وسطیٰ میں مسلسل شدید ہوتے جا رہے عدم استحکام کو ہوا دے رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر حالیہ دنوں کے دوران کئی مرتبہ اپنے انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ تہران کے ساتھ معمول کے ریاستی اور سفارتی تعلقات اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایران ’ایک انقلاب‘ کی بجائے ایک عام ریاست کا سا رویہ اختیار نہیں کرتا۔

Iran Abbas Araghchi
عباس عراقچی کے بقول انتہا پسندانہ نظریات کے حامل دہشت گرد عناصر کے خلاف کامیاب جنگ انتہائی ضروری ہےتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید