1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایدھی کی وفات پر بین الاقوامی ردعمل

بینش جاوید9 جولائی 2016

انسانیت کے خدمت گار عبدالستار ایدھی کی وفات پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی اخبارت میں بھی انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JMGP
Pakistan Aktivist und Wohltäter Abdul Sattar Ehdi gestorben
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

فوربز میگزین کے ایک مضمون میں ایدھی کے کام کے بارے میں لکھا گیا ہے، ’’ نچلی ذات، اچھوت اور فرقہ واریت کے شکار افراد کی لاشیں جنہیں کوئی چھونا نہیں چاہتا تھا اور جو لاشیں بوریوں میں بند ہوتی تھی، انہیں کوئی نہیں صرف ایدھی اٹھاتے تھے اور انہیں عزت کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا۔‘‘

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے، ’’عبدالستار ایدھی عظیم انسان تھے، ان کی موت پر شدید دکھ اور افسوس ہوا، ایدھی جیسے عظیم انسان روز پیدا نہیں ہوتے۔ دنیا اس عظیم انسان کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘ بھارتی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

Pakistan Aktivist und Wohltäter Abdul Sattar Ehdi
ساٹھ برس قبل ایدھی نے کچھ پیسوں سے ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھیتصویر: Imago/UIG

نیو یارک ٹائمز نے ایدھی کو اپنے ایک مضمون میں پاکستان کا ’فادر ٹریسا‘ کہا۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا، ’’ساٹھ برس قبل ایدھی نے کچھ پیسوں سے ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ آج یہ فاؤنڈیشن نرسنگ ہومز، یتمیوں کے سینٹرز، میٹرنیٹی سینٹرز کی سہولیات بالکل مفت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بھی ایدھی فاؤنڈیشن کی ہے۔‘‘

بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی نے عبدالستار ایدھی کے بارے میں اپنی ٹوئٹ میں لکھا، ’’عبدالستار ایدھی ایک غیر معمولی انسان تھے، ان کے کام نے کئی زندگیوں کو تبدیل کر دیا، وہ انسانیت کے اصل ہیرو ہیں۔‘‘

معروف بھارتی صحافی برکھا دت نے لکھا، ’’برائی، تشدد اور دہشت گردی کے اس ماحول میں عبدالستار ایدھی نے ثابت کر دیا کہ اچھائی اور بھلائی اب بھی دنیا میں پائی جاتی ہے۔‘‘

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا، ’’ایدھی نے انتہائی سادگی سے زندگی گزاری، ان کے پاس شلوار قمیض کے صرف دو جوڑے تھے، ان کی فاؤنڈیشن کا خرچہ لوگوں کی دیے ہوئے عطیات سے چلتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر وہ کراچی کی گلیوں میں اپنی جھولی پھیلا کر بھی بیٹھ جاتے اور لوگ دل کھول کر ان کے ادارے کے لیے مالی امداد فراہم کرتے تھے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید