اٹلی سے مہاجرین کی ملک بدری میں تیزی کا منصوبہ
1 جنوری 2017اطالوی حکومت ایسے مہاجرین کو ڈی پورٹ کرنے میں تیزی لا سکتی ہے، جنہیں ملک میں رہنے کی اجازت نہ ملی ہو، یعنی جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو گئی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نئی اطالوی حکومت ملک میں مہاجرین کے نئے حراستی مراکز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ غیرقانونی تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک بھیجنے کے اقدامات میں بھی تیزی لا رہی ہے۔
روئٹرز کے مطابق اطالوی پولیس کے سربراہ فرانکو گابریئلی کی جانب سے ملک بھر کے تھانوں کو ایک نیا دو صفحاتی ہدایت نامہ ارسال کیا گیا ہے، جس میں تحریر ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کی شناخت اور انہیں ان کے آبائی ممالک بھیجنے کے اقدامات میں تیزی لائی جائے۔
روئٹرز نے ملکی پولیس کے سربراہ کی جانب سے جاری کردہ اس ہدایت نامے کے حوالے سے لکھا ہے کہ پولیس کو مہاجرین کے بہاؤ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے خاتمے اور عدم استحکام اور خطرات سے نمٹنے کے لیے ’غیرمعمولی اقدامات‘ کرنے چاہییں۔ اس ہدایت نامے کے مطابق، ’’چیک کیجیے اور غیرقانونی افراد کو ملک سے نکال دیجیے۔‘‘
اطالوی وزیر داخلہ مارکو مینیتی بھی ملک میں نئے حراستی مراکز کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جہاں سیاسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کو ملک بدری سے قبل رکھا جائے گا۔ روم حکومت کا یہ اقدام اس کی جانب سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے مہاجرین کا بوجھ بانٹنے کے بارہا مطالبات نہ سنے جانے کے تناظر میں سامنے آ رہا ہے۔
دسمبر کے وسط میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے پاؤلو جینٹیلونی کی جانب سے مہاجرین کے حوالے سے حکومتی پالیسی میں تبدیلی کا یہ سب سے بڑا مظہر ہے۔ اٹلی کو گزشتہ برس بحیرہء روم سے ملک میں داخل ہونے والے غیرقانونی تارکین وطن کی ریکارڈ تعداد کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر اعظم جینٹیلونی اس حوالے سے سخت موقف کے حامل ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ برلن میں گزشتہ ماہ کی 19 تاریخ کو ایک کرسمس مارکیٹ پر ٹرک سے حملہ کرنے والا مشتبہ ملزم انیس عامری بھی تیونس سے کشتی ہی کے ذریعے اٹلی پہنچا تھا۔ یہ حملہ آور برلن حملے کے بعد فرار ہو کر اطالوی شہر میلان پہنچ گیا تھا، جہاں وہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔