1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی: سیاسی پناہ کے متلاشی انتہائی غیر یقینی صورتحال میں

مستقیم غوری
26 فروری 2020

اطالوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’سکیورٹی ڈکری‘ یا حفاظتی فرمان کے تحت سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر درخواست گزار کو وطن واپسی کے مراکز منتقل کر کے انہیں ملک بدرکر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/3YT1M
Italien Abgelehnte Asylbewerber aus Pakistan
تصویر: DW/M. Ghouri

اس فرمان کو اٹلی کے سابق وزیر داخلہ ماتیو سالووینی نے 2018 ء میں نافذ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی مناسبت سے اس متنازعہ حکم کو 'سالووینی ڈکری‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

اٹلی کئی دہائیوں سے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک آسان ابتدائی منزل رہا ہے لیکن اس فرمان کے نافذ ہونے کے بعد معاملات اب آسان نہیں رہیں گے۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سیاسی پناہ سے متعلق قانون میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انسانی تحفظ کی کٹیگری ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اطالوی شہریت دینے اور ختم کرنے کے نئے طریقے بھی وضع کیے جائیں گے۔

اٹلی میں سیاسی پناہ مزید مشکل

اس فرمان کے زد میں کئی ہزار لوگ آئیں گے۔ پاکستانی شہر سیالکوٹ کے رہائشی عارف (فرضی نام) بھی ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔

Italien Abgelehnte Asylbewerber aus Pakistan
پاکستانی شہر سیالکوٹ کے رہائشی عارف (فرضی نام) بھی ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔تصویر: DW/M. Ghouri

عارف کے مطابق وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں 2015 ء میں ایک خطرناک سفر کر کے یورپ میں داخل ہوئے۔ یہ سفر کئی مہینوں پر محیط تھا۔ اس دوران انہوں نے انتہائی کٹھن اور دشوار گزار راستے طے کیے جس میں منفی درجہ حرارت میں 20 گھنٹے تک پیدل سفر کرنا بھی شامل تھا، ''اسی راستے پر ہم سے پہلے گزرنے والے کچھ لوگوں کی لاشیں بھی نظر آئیں جنہیں دیکھ کر ایک لمحہ تو ہمت جواب دے گئی۔ ترکی سے یونان کے راستے یورپ میں داخل ہوئے اور پھر یونان سے مقدونیا، سربیا اور ہنگری تک پیدل سفر کیا۔ شدید مشکلات سے گزر کر ہم بالآخر جرمن شہر میونخ پہنچے، جہاں سے ہمیں لِمبرگ شہر کے پناہ گزین کیمپ میں بھیج دیا گیا۔‘‘

پاکستان سے اٹلی، جان لیوا مشکلات

عارف کے مطابق ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد انہیں ڈھائی ماہ کا عارضی رہائشی کارڈ جاری کیا گیا اور رہائش بھی فراہم کر دی گئی۔ مگر جرمنی میں جب انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہیں سالہا سال سے سیاسی پناہ نہیں ملی تھی تو وہ جرمن حکام کو اطلاع دیے بغیر اٹلی چلیے گئے، جہاں وہ بلزانو نامی شہر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس موقع پر پولیس نے ان کے فنگر پرنٹ چیک کیے تو انہیں واپس جرمنی جانے کا کہا گیا مگر وہ دوبارہ اٹلی داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور پناہ گزین کیمپ میں اندراج کرا دیا، ''مجھے چھ ماہ کا رہائشی اجازت نامہ دیا گیا، جس کی تجدید ہوتی رہی تاہم 2018 ء میں میرا سیاسی پناہ کا کیس مسترد ہوگیا۔‘‘

اس دوران عارف نے آسٹریا میں بھی قسمت آزمائی کی اور اب ایک بار پھر وکیل کے ذریعے سیاسی پناہ کا کیس داخل کرایا ہوا ہے، '' اگر کیس دوبارہ مسترد ہو گیا تو پھر کچھ اور سوچوں گا شاید جرمنی چلا جاؤں جہاں پہلی بار فنگر پرنٹ دیے تھے۔‘‘

واپسی کی کوئی گنجائش نہیں

اتنی مشکلات اور دشواریوں کے باوجود عارف واپس پاکستان جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ابھی امید ہے کہ شاید کچھ ہو جائے گا اگر نہیں بھی ہوا تو کسی بھی قیمت پر واپس پاکستان نہیں جاؤں گا۔ قرضہ لے کر آیا ہوں۔ وہاں روزگار بھی نہیں۔ ابھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بیان تھا کہ ان کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ان کا تودو فرد کا کنبہ ہے جبکہ میرے کنبہ میں 10 افراد ہیں میں کیسے گزارا کروں گا؟‘‘

Italien Abgelehnte Asylbewerber aus Pakistan
اتنی مشکلات اور دشواریوں کے باوجود عارف واپس پاکستان جانے کو تیار نہیں ہیں۔تصویر: DW/M. Ghouri

یہ صورتحال صرف پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور عراق وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے وطن واپسی پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایسے ایک شخص عبدالرحمان ہیں۔ وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے اٹلی میں ہیں اور اب ان کے رہائشی پرمٹ کی تجدید نہیں ہو رہی کیونکہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ ان کی نئی درخواست جلد قبول ہوجائے گی۔

واضح رہے گزشتہ سال اٹلی میں 80 ہزار سے زائد سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ لوگ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف امیگریشن اور سیاسی پناہ کے قوانین میں تبدیلیوں کی پرواہ کیے بغیر لوگ اب بھی مسلسل اٹلی آرہے ہیں۔