1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اِس جاپانی ہوٹل میں لاشیں رہتی ہیں

12 ستمبر 2011

یوکوہاما کے مضافات میں نوڈلز کی ایک دکان کے ساتھ ہسویاشی تارامورا نامی جاپانی شخص نے ایک طرح کا ہوٹل قائم کر رکھا ہے، جو مختصر قیام کی دیگر جگہوں یعنی سرائے خانوں سے مختلف نظر نہیں آتا لیکن یہ جگہ لاشوں کا مسکن ہے۔

https://p.dw.com/p/12XUa
تصویر: picture-alliance/dpa

کبھی کبھار کچھ جوڑے غلطی سے سفید اور سرمئی ٹائلوں سے بنی اس جگہ کو ہوٹل سمجھ کر آ جاتے ہیں لیکن تارا مورا کی یہ سرائے کوئی محبت کرنے والوں کی جگہ یا تھکے ہوئے مسافروں کی قیام گاہ نہیں ہے۔ اِس عمارت کے ریفریجریٹرز میں 18 مہمان تابوتوں میں بند پڑے ہیں۔

تارا مورا کے سٹاف نے پوچھنے پر بتایا کہ جب کوئی جوڑا کمرے کی تلاش میں آتا ہے تو وہ ان کو بتاتے ہیں کہ اُن کے پاس صرف سرد کمرے ہیں۔ اس سرد خانے کا یومیہ کرایہ بارہ ہزار ین ہے۔ سوگوار خاندانوں کو مردے جلانے والی جگہوں پر کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے، اس لیے سوگوار خاندان اپنے مردے کو سرد خانے میں رکھوا دیتے ہیں، جہاں وہ جب جی حاہے، اپنے مردے کو دیکھنے کے لیے بھی آ سکتے ہیں۔

جاپان میں ان دنوں موت کے کاروبار کی مارکیٹ بڑھ رہی ہے۔  تارا مورا اس کی ایک مثال ہے اور اب مزید تاجر بھی اس کاروبار کو آگے بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ 2010ء میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 1.2 ملین افراد کا انتقال ہوا۔ اس طرح ملک میں اموات کی سالانہ شرح 0.95 رہی۔ شرح اموات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ سال جاپان میں ہونے والی اموات کی تعداد معمول سے 55 ہزار زیادہ رہی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ 2040ء میں یہ تعداد 1.66 ملین تک پہنچ جائے گی اور وہ نسل ختم ہو جائے گی، جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی آبادی میں اضافہ کیا تھا۔ تب جاپان کی آبادی کم ہو کر 20 ملین تک آ جائے گی۔

اگرچہ دو عشروں سے جاپان میں اقتصادی اضطراب پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود جاپانی باشندے فی کس اپنی ثقافتی تقریبات میں روایت کے مطابق پھولوں، تابوت، جنازہ اور دیگر اخراجات پر اپنی آمدانی کا اوسطاً 1.2 ملین ین خرچ کرتے ہیں۔

71 سالہ تارا مورا نے کچھ عرصہ پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کاروبار کو قبروں سے آگے توسیع دے گا اور اس غرض سے انہوں نے گزشتہ سال ہی سردخانے کھولے ہیں۔ پھولوں سے ڈھکی ہوئی کھڑکیوں کے پیچھے، سوگواروں کی نگاہوں سے اوجھل، مردوں کے لیے ایک آٹومیٹک سٹوریج سسٹم ہے تاکہ سوگوار خاندان اپنے پیاروں کو دیکھنے کسی وقت بھی آ سکیں۔

تارا مورا کا کہنا ہے کہ یوکوہاما میں لوگوں کو مردے کو نذر آتش کرنے کے لیے لگ بھگ چار دن انتظار کرنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے سرد خانے کا رواج چل پڑا ہے۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ بصورت دیگر لوگوں کو مردوں کو اپنے گھروں میں رکھنا پڑتا، جہاں پہلے ہی زیادہ جگہ نہیں ہوتی۔  اس کاروبار میں داخل ہونا آسان ہے اور اس کے لیے کوئی  لائسنس یا لازمی قابلیت درکار نہیں۔ مردہ خانے کے ڈائریکٹر کو ایک دفتر اور ٹیلی فون کی ضرورت ہے اور بس۔  تابوت اور تقریب کے لیے ہال آسانی سے بک ہو جاتے ہیں اور اسی طرح پادری یا دیگر مذہبی شخصیات کو بھی بلوایا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس امریکہ میں اس کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے تین سال کی تعلیم کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جاپان کی وزارت برائے اقتصادی امور، تجارت اور صنعت کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اس کاروبار سے وابستہ 2,796 کمپنیوں میں سے ایک تہائی کو اس شعبے میں دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔

رپورٹ: سائرہ ذوالفقار

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں