اولمپیائی انقلاب کی ضرورت ہے، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
30 نومبر 2015ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یوشا ویبر کے مطابق ہیمبرگ میں اولمپکس کا انعقاد اب مشکل ہی دکھائی دے رہا ہے۔ شہری انتظامیہ نے اس بارے میں ایک ریفرنڈم کرایا اتھا، جس میں زیادہ تر شہریوں نے کھیلوں کے بڑے مقابلوں کے اس ایونٹ کے انعقاد کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ ویبر مزید لکھتے ہیں کہ ریفرنڈم سے قبل تمام لوگ اس حوالے سے پر امید تھے، جن میں شہر کے میئر، کھیلوں کے نگران ادارے کے حکام، کھلاڑی اور درخواست تیار کرنے والی کمیٹی۔ ان سب کا خیال ہے کہ ہیمبرگ میں اولمپک کا انعقاد سب کے مفاد میں ہے۔ اس بارے میں کرائے جانے والے جائزوں میں بھی اس تجویز کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ تبصرہ نگار کے بقول ان سب کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ جرمنی میں اولمپک مقابلوں کے انعقاد کا منصوبہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 2022ء کے سرمائی اولمپکس میونخ میں کرانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ اس میں بھی عوام سے رائے لی گئی تھی اور نتیجہ ہیمبرگ جیسا ہی نکلا تھا۔ ویبر کے بقول حالانکہ جرمن عوام کا شمار کھیلوں کو پسند کرنے والے شہریوں میں ہوتا ہے اور گزشتہ دس برسوں کے دوران یہاں کئی بین الاقوامی مقابلے منعقد بھی ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر 2006ء میں فٹ بال کا عالمی کپ۔ اس کے بعد میونخ اور ہیمبرگ کی عوام کا اولمپکس کے خلاف فیصلہ دینا گہری بداعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یوشا ویبر اپنے تبصرے میں مزید لکھتے ہیں کہ اولمپک کھیل اپنی موجوہ شکل میں مالیاتی اعتبار سے ایک ایسا ایونٹ بن چکے ہیں، جس میں بے انتہا اخراجات آتے ہیں اور نتیجہ اس کے مطابق نہیں نکلتا۔ اعداد و شمار کے مطابق اولمپکس پر پہلے سے لگائے جانے والے اندازوں سے تقریباً 130 فیصد زیادہ پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ ویبر کے بقول اولمپکس کرانے کے خواہش مند شہر جب بھی اپنے اس منصوبے کو جمہوری انداز میں پایہ تکمیل تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بارے میں عوام سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے 2024 ء کے گرمائی مقابلوں کے دیگر خواہش مند شہروں نے ریفرنڈم کرانے کا سوچا بھی نہیں۔
یوشا ویبر کے مطابق ہیمبرگ میں اولمپک مقابلوں کے لیے کوشش کرنے والوں کے لیے ریفرنڈم کا نتیجہ اُن کے مُنہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ یقیناً یہ لوگ بہت آسانی سے یہ توجیح پیش کر سکتے ہیں کہ مہاجرین کا بحران اور پیرس حملوں کے بعد کی سلامتی کی صورتحال کی وجہ سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے۔ اگر وہ یہ کہیں گے تو وہ غلط ہو گا۔ کیونکہ جرمن عوام اولمپک مقابلوں کی موجودہ شکل کو سمجھ نہیں پا رہے۔ کیونکہ یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں، اسی وجہ سے انتظامات کرنا بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے، یہ مقابلے ان کے کاروبار پر بھی مبہم انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یوشا ویبر اپنے تبصرے کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ان ساری وجوہات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصلاحات کرنے کا بہترین وقت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھیلوں کے فروغ کے اداروں کے ڈھانچوں مں تبدیلی اور اخراجات میں کمی نا گزیر ہے۔ ان کے بقول اس کے علاوہ ممنوعہ ادویات کی روک تھام کے معاملے کو بھی غیر جانبدار ہاتھوں میں دیا جانا لازمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وقت ہے ایک اولمپیائی انقلاب کا ہے کیونکہ اس کے بعد ہی کھیلوں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے گا۔