اوباما اور انسانی حقوق
15 جنوری 2009امریکی صدر جارج بُش کے دور حکومت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جس انداز سے لڑا گیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اُس طرز عمل اور انداز پر کڑی تنقید کرتی چلی آرہی ہیں۔
عراق جنگ کے دوران ابوغریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا جبکہ گوانتانامو بے میں مبینہ شدت پسندوں کو جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف ’واٹر بورڈنگ‘ کے طریقہء کار کو نائب امریکی صدر ڈک چینی کئی مربتہ صحیح ٹھہراچکے ہیں جبکہ حقوق انسانی کی تنظیموں کے نزدیک پوچھ گچھ کا یہ طریقہء کار ’ٹارچر‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ اب بیس جنوری کو باراک اوباما باقاعدہ طور پر ملک کے نئے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کریں گے۔ امریکہ میں مالیاتی بحران اور دیگر داخلی مسائل کے علاوہ باراک اوباما کے سامنے عراق اور افغانستاں کی جنگیں زبردست چیلنج ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تعلق سے امریکہ کی ساکھ میں بہتری لانے کا عمل بھی اُن کے لئے کسی چیلنج سے کم ثابت نہیں ہوگا۔
کیا باراک اوباما کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے لئے نئی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی یا پھر بُش انتظامیہ کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھا جائے گا؟
اس سوال کے جواب میں واشنگٹن میں موجود ’ڈان نیوز‘ کے بیورو چیف انور اقبال کہتے ہیں کہ باراک اوباما نے صدارتی انتخابات سے قبل انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے جو وعدے کئے اُن کو پورا کرنے میں شاید انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔