ان قدرتی مناظر کو دیکھنے میں بھی کہیں دیر نہ ہو جائے
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑے سنگی مرجانی چٹانوں کے نظام سے لے کر دیو قامت گلیشیئرز جیسے مقامات کے خاتمے سے پہلے پہلے انہیں دیکھنے کے لیے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سیاح ان مقامات کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
عارضی خزانہ
سالانہ بیس لاکھ افراد گریٹ بیریئر ریف (سنگی مرجانی چٹانوں کا نظام) کو دیکھنے آسٹریلیا آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق تقریبا ستر فیصد سیاح یونیسکو کے اس عالمی ورثے کو اس وجہ سے دیکھنے آ رہے ہیں کیوں کہ یہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر لیا جائے تو نوے فیصد کورل ختم ہو جائیں گی۔ کورل کو چھونے یا گندگی سے سیاح اس عمل کو تیز بنا سکتے ہیں۔
انسان کی لائی ہوئی تباہی
اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار برفانی ریچھوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث بنے؟ سن دو ہزار دس کے ایک سروے کے مطابق چرچل اور کینیڈا میں برفانی ریچھ کی سفاری سالانہ 20 میگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث ہے۔ زیادہ تر سیاح جہازوں سے سفر کرتے ہیں۔ اٹھاسی فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث انسان ہے۔
براعظم انٹارکٹیکا دیکھنے کا شوق
برفانی ریچھوں کے ساتھ ساتھ گلیشئرز پگھلنے کی تصاویر کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی نمائندہ تصاویر سمجھا جاتا ہے۔ سیاح کروز شپ کے ذریعے سمندر میں تیرتے ہوئے ایسے عظیم الجثہ برفانے تودے کو دیکھنے کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں۔ سن 1990ء میں براعظم انٹارکٹیکا کی سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ سن 2018ء میں یہ تعداد 46 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
سیزن کے عروج میں
تیزی سے ختم ہوتی ہوئی قدرتی برف کو دیکھنے کے لیے لازمی نہیں آپ قطب شمالی یا قطب جنوبی جائیں۔ براعظم افریقہ میں کلیمنجارو کی برفانی پہاڑیوں کی سیاحت سے سالانہ چوالیس سے پچاس ملین ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں وہاں کی 85 فیصد برف ختم ہو گئی ہے۔ باقی ماندہ برف بھی رواں صدی کے وسط تک ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
بے تاج بادشاہ
جب سن 1910ء میں امریکا کے گلئیشیر نیشنل پارک کا افتتاح ہوا تھا تو اس کی ایک سو سے زائد چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا۔ اب ایسی دو درجن سے بھی کم چوٹیاں باقی بچی ہیں۔ یہ پارک اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تحقیقی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سالانہ تیس لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔
ایک جنت کا نقصان
مالدیپ سیاحوں کی جنت ہے۔ اس کے بارہ ہزار کورل جزیرے ہیں، جہاں اڑھائی میٹر بلند شفاف پانی کے نیچے سے سفید ریت نظر آتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں اس ملک کے صدر نے ایک نیا ایئرپورٹ اور سیاحتی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ موجودہ سے سات گنا زیادہ سیاحوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ نئے جزیرے بنانے کے لیے مقامی کمیونیٹیز کو بھی دوسری جگہ آباد کیا جانا ہے۔ ابھی یہ منصوبہ پایا تکمیل نہیں پہنچا۔
نمکیں دلدل
رفتہ رفتہ صرف جزیرے ہی زیر آب نہیں آ رہے بلکہ فلوریڈ کا دلدلی ایورگلیڈز نیشنل پارک بھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ایورگلیڈز کا تقریبا نصف حصہ خشک ہو چکا ہے اور اب زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔