1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانوں کا مستقبل

13 دسمبر 2009

کيا مستقبل ميں انسانوں کو ايک باعزت اور باوقار زندگی فراہم کرنا ممکن ہوگا؟ يہ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہيگن منں ہونے والی عالمی ماحولياتی کانفرنس کا بنيادی سوال ہے۔

https://p.dw.com/p/L1Bn
تصویر: PIcture-alliance / dpa

اقتصادی،ثقافتی اور سماجی انسانی حقوق کو ممکن بنانا عالمی برادری کے لئے ايک بڑا چيلنج ہے۔ کم ازکم قطعی تعداد کے لحاظ سے آج دنيا ميں 43 سال پہلے کے مقابلے ميں اب زیادہ انسان بستے ہيں جنہيں روزانہ پيٹ بھر کھانے، تعليم اور علاج کی ضرورت ہے۔ دنيا کے بعض علاقوں ميں پچھلے چار عشروں ميں سماجی بہبود کے سلسلے ميں انقلابی نوعيت کی کاميابياں حاصل کی گئی ہيں۔

اس کے باوجود، سن1966ء کے مقابلے ميں آج ایسے انسانوں کی تعداد کہيں زيادہ ہے جو اقوام متحدہ کے مطابق بھوک کے شکار ہيںاور جنہيں سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق حاصل نہيں ہيں۔ سن 1960ء کے مقابلے میں عالمی آبادی تقريباً دوگنی ہوگئی ہے۔

بہت سے ایسے انسان بھی،جنہیں بھوکا نہیں رہنا پڑتا اور جنہيں بنيادی معاشی حقوق اور سہولتيں حاصل ہيں، اکثر يہ محسوس کرتے ہيں کہ ان سے غير منصفانہ سلوک کيا جاتا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے عالمگيريت کی وجہ سےتقسيم وسائل کے سلسلے ميں نا انصافی ڈرامائی حد تک بڑھ گئی ہے۔ نہ صرف شمال اور جنوب کے مابين بلکہ اقوام متحدہ کے 192 رکن ممالک ميں غريبی اور اميری کے درميان خلیج بہت زیادہ وسیع ہوگئی ہے۔ جديد ميڈيا کی اس دنيا ميں اب ايک اقليت کی بے پناہ دولت کو غريبوں کے ہجوم کی آنکھوں سے پوشيدہ رکھنا ممکن نہيں رہا ہے۔

Südafrika Gesundheitswesen Krankenhaus in Soweto Patientin
وقت کے ساتھ ساتھ انسانی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےتصویر: AP

اکثر ممالک ميں سياست، اقتصاديات و صنعت اور ٹريڈيونينز يہ سمجھتی ہيں کہ سماجی اور اقتصادی انصاف صرف اقتصادی نمو ميں اضافے کے ذریعہ سے قائم کيا جاسکتا ہے۔ يہ ايک خودفريبی اور خطرناک خام خيالی ہے۔

محض اقتصادی نمو يا ترقی، مجموعی قومی پيداوار کی منصفانہ تقسيم يا ملازمتيں پيدا ہونے کی ضمانت نہيں ہے۔ دوسرے يہ کہ عالمی منڈيوں ميں اشياء ايک کافی حد تک دستياب ہيں اور اب پہلے جيسی تيز اور وسيع اقتصادی نمو کا امکان نہيں ہے۔ تيسرے يہ کہ اس قسم کا اقتصادی نمو نہيں ہونا چاہيے جس ميں وسائل مکمل طور پر خرچ ہوجائيں اور ماحول تباہ ہوجائے۔

اس صدی کے دوران زمين کے درجہء حرارت ميں اضافے کو زيادہ سے زيادہ صرف 2 ڈگری سينٹی گريڈ تک محدود کردینے کا ہدف قابل حصول ہے ،بشرطيکہ توانائی کی پيداوار اور خرچ ميں ايک جامع تبديلی لائی جائے اور قومی اور عالمی اعتبار سے تمام وسائل تک پہنچ اور ان کی تقسيم کا ايک منصفانہ نظام قائم کيا جائے۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت: عاطف بلوچ