امریکی دانش ور مہاجرین کے لیے جیبیں اور در کھولے ہوئے
24 مئی 2016گزشتہ ایک برس میں کم از کم ایک درجن اسکولوں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ ایسے شامی مہاجر جن کا داخلہ اسکولوں میں ہو جائے گا، ان کی فیس یا تو مکمل طور پر معاف ہو گی یا جزوی طور پر۔
اس فہرست میں قریب 60 ایسے کالج بھی شامل ہو چکے ہیں، جنہوں نے سن 2011 سے اب تک شامی طلبہ کے لیے خصوصی اسکالر شپس مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ان کالجوں نے اب تک ڈیڑھ سو سے زائد شامی طلبہ کو اسکالرشپس دی ہیں۔
شامی مہاجرین کے لیے اس علمی کوشش کا آغاز امریکی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن نامی غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا۔
یہ تنظیم قدرتی آفات اور تشدد سے متاثر خطوں اور علاقوں کے طلبہ کو مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔
اس انسٹیٹیوٹ کے مطابق شامی خانہ جنگی سے متاثر گیارہ ملین بے گھر افراد میں سے قریب ایک لاکھ ایسے ہیں، جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پہنچ سکتے ہیں، تاہم ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے حصول کا کوئی راستہ نہیں۔
اس امدادی تنظیم کے سربراہ ایلن گُڈمین کے مطابق، ’’ہمیں مدد کی طالب اتنی بڑی تعداد پہلے کبھی نہیں ملی۔
شامی خانہ جنگی بے انتہا پیچیدہ ہے اور اس کے اثرات کسی بھی بحران کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔‘‘
شامی تنازعے کے آغاز پر امریکی میں متعدد اسکولوں نے شامی طلبہ کی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات شروع کیے تھے اور اس لہر میں بعد میں متعدد دیگر تعلیمی ادارے بھی شامل ہوتے گئے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا اگلے برس چھ شامی مہاجرین کو ٹیوشن فیس میں مکمل چھوٹ فراہم کر رہی ہے جب کہ پینسیلوینا کے الزبتھ ٹاؤن کالج نے بھی پانچ شامی طلبہ کے لیے 25 ہزار ڈالر سالانہ کے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی تعلیمی اداروں میں شامی طلبہ کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، تاہم اب بھی متعدد دیگر اقوام کے مقابلے میں یہ تعداد خاصی کم ہے۔