1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی انتخابات میں مداخلت کے احکامات خود پوٹن نے دیے؟

علی کیفی
17 دسمبر 2016

امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ بالواسطہ طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو امریکی انتخابات کے دوران ہیکرز کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ’جوابی کارروائی‘ کا عزم ظاہر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2URzu
USA Pressekonferenz Präsident Barack Obama im Weißen Haus
امریکی صدر باراک اوباما سولہ دسمبر کو وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/M. Wilson

جمعے کے روز اپنی سال کی روایتی اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے خفیہ اداروں کی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف ہیکرز کے حملوں کے پیچھے روس کا ہاتھ تھا۔ اوباما نے کہا، وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ماسکو حکومت کے ’اعلیٰ حکام‘ اس معاملے میں ملوث تھے اور یہ کہ روس میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی مرضی کے بغیر ہو:’’میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آیا کوئی ایسے اعلیٰ روسی حکام ہوں گے، جو اپنی مرضی سے سرگرم عمل ہوتے ہوئے امریکی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا فیصلہ کریں گے، بغیر اس کے کہ ولادیمیر پوٹن کو اس کا علم ہو۔‘‘

اوباما نے ایک بار پھر جوابی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’چند ایک اقدامات کھلے عام کیے جائیں گے جبکہ دیگر ایسے ہوں گے کہ اُن کا صرف روس کو پتہ ہو گا، نہ کہ اور کسی کو‘۔ اوباما نے پہلے بھی نشریاتی ادارے این پی آر کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کوئی غیر  ملکی حکومت انتخابی مہم میں مداخلت کی کوشش کرے گی تو امریکا جوابی اقدام کرے گا:’’اور یہ کام ہم اپنی مرضی کے وقت پر اور اپنے طریقے سے کریں گے۔‘‘

اوباما کے مطابق اُنہوں نے اس سال ستمبر میں چین میں منعقدہ گروپ جی ٹوئنٹی کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر پوٹن کو ذاتی طور پر اس طرح کے حملے بند کر دینے کے لیے کہا تھا۔ اوباما کے مطابق اُنہوں نے پوٹن سے کہا تھا کہ ایسا نہ ہونے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

Symbolbild US-Wahl - Donald Trump & Wladimir Putin
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (بائیں) نے انتخابی مہم میں روسی مداخلت کی رپورٹوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے، دائیں جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹنتصویر: picture-alliance/dpa/S. Thew & A. Druzhinin/Ria Novosti/Kremlin Pool

اوباما کے برعکس نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کی جانب سے ہیکرز کے حملوں کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔ حال ہی میں اُنہوں نے اس طرح کی رپورٹوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اور تو اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی بھی خفیہ ادارے سی آئی اے کے تجزیے سے متفق نہیں ہے۔ تاہم جمعے کے روز جریدے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی ہی نہیں بلکہ تمام خفیہ اداروں کے مرکزی رابطہ کارجیمز کلیپر بھی سی آئی اے کی معلومات کی تائید کرتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس بات سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے اپنے کارکنوں کو آگاہ کیا تھا۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہا کہ وہ روس کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ایسے میں روس کے ساتھ اس معاملے پر کھلا تنازعہ اُن کے مفاد میں نہیں کیونکہ انتخابی مہم پر اثر انداز ہونے کے الزامات صدر کے طور پر اُن کے انتخاب کے جائز ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگا سکتے ہیں۔ اوباما نے بہرحال امید ظاہر کی کہ اُن کے جانشین بھی کسی غیر ملک کی جانب سے امریکا میں اس طرح کی مداخلت پر تشویش محسوس کریں گے۔

USA Hillary Clinton in Capitol Hill
ہلیری کلنٹن نے ان مبینہ روسی کوششوں کو اپنے اور اپنی انتخابی مہم پر ہی نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا پر حملے کے مترادف قرار دیا ہےتصویر: picture-alliance/newscom/K. Dietsch

اوباما نے کہا:’’روس ہمیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ وہ ایک چھوٹا اور کمزور ملک ہے۔ اُس کی معیشت ایسا کچھ بھی تیار نہیں کر رہی، جسے کوئی اور شخص خریدنا چاہے۔ لیکن روس ہم پر اثر انداز ضرور ہو سکتا ہے، اگر ہم یہ بھول جائیں کہ ہم کون ہیں اور اگر ہم اپنی اَقدار کو چھوڑ دیں۔‘‘

ٹرمپ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہونے والی ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن نے بھی اپنے ابتدائی رد عمل میں روس کی ان مبینہ کوششوں کو اپنے اور اپنی انتخابی مہم پر ہی نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا پر حملے کے مترادف قرار دیا ہے۔