افغان فیملی امریکا پہنچنے پر گرفتار
6 مارچ 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے وفاقی عدالت میں دائر کردہ ایک پٹیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن CBP کے ایجنٹس نے اس افغان فیملی کو گزشتہ منگل کے دن اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ قانونی طور پر لاس اینجلس کے ہوائی اڈے پہنچی تھی۔ اس کنبے میں تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس فیملی کو اسپیشل امیگرنٹس ویزا کا اجرا کیا گیا تھا۔ اس گھرانے کا سربراہ افغانستان میں امریکی فورسز کے لیے خدمات سر انجام دے چکا ہے، اس لیے اسے اور اس کے گھر والوں کو اپنے ملک میں سکیورٹی خدشات لاحق تھے۔ اسی لیے یہ اپنے کنبے کے ساتھ قانونی طور پر امریکا پہنچا تھا۔
انٹرنیشنل ریفیوجی اسسٹنس پراجیکٹ سے وابستہ ان وکلاء نے وفاقی عدالت کو بتایا ہے کہ اس فیملی کو کسی نامعلوم مقام پر قید کیا گیا ہے جبکہ انہیں کوئی قانونی مدد بھی حاصل نہیں ہے۔ سانتا آنا کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کردہ اس پٹیشن کے مطابق اس افغان فیملی کو ’ناجائز‘ طور پر گرفتار کیا گیا ہے اور یہ عمل امریکی آئین کے برخلاف ہے۔
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ متعدد مرتبہ استفسار کے باوجود CBP نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اس کنبے کو حراست میں کیوں لیا گیا ہے اور یہ کہ آیا ان افراد سے کوئی پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عدالت چھ مارچ بروز پیر اس پٹیشن پر بحث کرے گی۔ اس پٹیشن میں البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ زیر حراست اس افغان فیملی کا سربراہ افغانستان میں امریکی فوج کے لیے کیا خدمات سر انجام دیتا تھا۔
انٹرنیشنل ریفیوجی اسسٹنس پراجیکٹ کے مطابق ماں اور ان کے بچوں کو لاس اینجلس میں مقید کیا گیا ہے جبکہ والد کو کیلی فورنیا میں واقع ایک ہائی سکیورٹی جیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔ بچوں کی عمریں چھ، سات اور آٹھ برس بتائی گئی ہیں، جو ماں کے ساتھ ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں ایک متنازعہ حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ مہاجرین کی امریکا آمد پر ایک سو بیس دن کی روک لگائی گئی تھی۔ تاہم ایک امریکی عدالت نے اس حکم نامے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اب ٹرمپ اسی حوالے سے ایک نیا حکم نامہ جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ پابندی کی زد میں آنے والے ان مسلم ممالک میں افغانستان شامل نہیں تھا۔