افغان ضلع سنگین پر قبضے کی جنگ، امریکی فضائی حملے شروع
24 دسمبر 2015صوبہ ہلمند کو روایتی طور پر افغان طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ علاقہ منشتیات کی پیداوار کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ طالبان پہلے ہی ضلع سنگین کے زیادہ تر حصوں پر قابض تھے لیکن انہوں نے بدھ کے روز پولیس سینٹر اور انتظامی عمارتوں پر بھی قبضے کا اعلان کر دیا تھا۔ طالبان کی اس پیش قدمی کے بعد کابل حکومت کا تردید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سب کچھ ’حکومت کے کنٹرول‘ میں ہے۔
آج افغان فوج کے سینئر کمانڈر جنرل عبدلودود کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کے خلاف اس آپریشن میں نیٹو اور امریکی فضائیہ کی مدد حاصل ہے جبکہ طالبان کو ضلع سنگین کے مرکز سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس لڑائی میں طالبان کے مقامی لیڈر ملا ناصر سمیت ساٹھ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ زخمی ہونے والے طالبان کی تعداد چالیس بتائی گئی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ان حکومتی دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
افغان وزارت داخلہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ لڑائی میں طالبان کمانڈر ملا ناصر ہلاک ہو گیا ہے۔ نیٹو افواج کے ایک ترجمان نے فضائی حملوں کی تو تصدیق کی ہے لیکن کسی قسم کی بھی مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان صوبہ ہلمند کے تین اضلاع پر پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں جبکہ اس صوبے کے کئی دیگر علاقے بھی ان کے زیر کنٹرول ہیں۔ صوبے کے اسٹریٹیجک راستوں پر بھی طالبان کا کنٹرول ہے، جس کی وجہ سے حکومتی سکیورٹی فورسز کو سپلائی بحال اور پیش قدمی کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ماضی میں امریکی اور برطانوی افواج طویل عرصے تک ضلع سنگین کے لیے لڑائی کرتی آئی ہیں اور اس لڑائی میں ان کے درجنوں فوجی بھی مارے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار سنگین پر طالبان کے قبضے کو مغربی طاقتوں کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
نیٹو حکام کے مطابق ان کی طرف سے علاقے میں فوجی مشیر بھیج دیے گئے ہیں اور مزید برطانوی فوجی بھی رواں ہفتے بھیج دیے جائیں گے۔ نیٹو حکام نے ان رپورٹوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے کہ وہاں ان کے اسپیشل یونٹس پہلے ہی سے تعینات ہیں۔
قبل ازیں طالبان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیرملکی فوجی سنگین کی لڑائی میں براہ راست شریک ہیں اور شہری علاقوں پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں۔