افغانستان کے لال انار بین الاقوامی منڈی کی تلاش میں
افغانستان کے جنوبی حصے کے کاشت کاروں کے مطابق اس برس انار کی فصل بہت اچھی رہی لیکن انہیں خدشہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹوں کے باعث انار کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا یا بہت ہی سستے داموں فروخت ہوگا۔
افغانستان کے انار زیادہ تر پاکستان برآمد کیے جاتے ہیں
افغانستان کے انار زیادہ تر پاکستان برآمد کیے جاتے ہیں جہاں افغان کاشت کاروں سے یہ انار انتہائی سستے داموں خریدے جاتے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر کشیدگی کے باعث تجارت میں رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سال کے آغاز میں پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے اور چمن کے مقام پر پاک افغان سرحدی راستہ بھی بند رہا۔
عالمی منڈیوں تک رسائی
افغان کاشت کاروں کی کوشش ہے کہ اُنہیں افغان حکومت ایران کے راستے سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی دے۔ ایک کاشت کار ظاہر جان کا کہنا ہے،’’افغان حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اچھے داموں انار خریدنے والی نئی منڈیوں کی تلاش میں ہماری مدد کرے۔‘‘
انار کی پیداوار میں اضافہ
قندھار چیمبر آف کامرس کے سربراہ حاجی نصراللہ ظاہر کے مطابق اس سال انار کی کاشت میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی افغان اناروں کو برآمد کرنے کی کوشش میں ہیں۔
افغانستان کا انار اس خطّے کا سب سے بہترین انار
افغان برآمدات سے متعلق ادارے کے ڈائریکٹر زمان پوپل کا کہنا ہے کہ افغانستان کا انار اس خطّے کا سب سے بہترین انار ہے اور بہت سے ممالک افغان انار کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ افغان حکومت انار کو فضائی طور پر بر آمد کرنے کا بھی سوچ رہی ہے جو کہ مہنگا لیکن انتہائی تیز ذریعہ ہے۔
جنگ کے اثرات
زراعت افغانستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ملکی آبادی کا ستّر سے اسّی فیصد حصہ زراعت سے منسلک ہے لیکن تیس برس سے زائد عرصے سے جنگ اور تنازعات نے یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنگ کے باعث افغانستان کی زرخیز زمین بھی متاثر ہوئی ہے۔
انار کی کاشت زیادہ فائدہ مند
افغانستان میں اناراور زعفران کی کاشت کو پوست کی غیر قانونی کاشت کا ایک بہترین نعم البدل تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہرجان کا کہنا ہے،’’ میری تمام کسانوں سے درخواست ہے کہ وہ پوست کے بجائے انار کاشت کریں۔ انار کی کاشت فائدہ مند بھی ہے اورغیر قانونی بھی نہیں۔‘‘ افغانستان میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باوجود پوست کی کاشت میں کمی نہیں لائی جاسکی ہے۔