افغانستان کا پرامن لیکن غریب ترین علاقہ
7 ستمبر 2016افغانستان کے شمال مشرقی علاقے واخان کے لوگوں کو ہر کوئی فراموش کر چکا ہے۔ سعید بیگ واخان کے گاؤں سرقند میں اپنی والدہ، اہلیہ اور پانچ بچوں کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اس علاقے میں زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
سعید ابھی تک خوراک، چاول، تیل اور نمک کے بدلے اپنی بھیڑیں اور بکریاں بیچتے ہیں۔ ہندوکش کے اس علاقے میں ابھی تک لین دین بارٹر سسٹم (اشیاء کے بدلے اشیاء) کے تحت ہوتا ہے۔ سعید اس بارے میں بتاتے ہیں، ’’ہم ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ ہماری کوئی آمدنی ہی نہیں ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے بچے بھوکے رہیں گے بلکہ ہم سب بھوکے رہیں گے۔‘‘
سعید کے بچوں نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے ہیں لیکن یہ بچوں کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ سعید کی خواہش ہے کہ اس کے بچے بڑے ہو کر سرکاری نوکری کریں تاکہ ان کی آمدن ہو۔
واخان راہداری کو افغان حکومت نے حال ہی میں ملک کا نیشنل پارک قرار دے دیا ہے لیکن اس علاقے کو شمار افغانستان کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس علاقے کو افغانستان کا پرامن ترین علاقہ بھی کہا جا سکتا ہے اور یہاں سب سے زیادہ تعداد میں اسماعیلی کمیونٹی کے لوگ آباد ہیں۔
صوبہ بدخشان کا علاقہ واخان انیسویں صدی کی جغرافیائی سیاست کا نتیجہ ہے۔ 1873ء میں اسے مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا تاکہ روسی اور برطانوی سلطنتوں کے مابین ایک بفر زون قائم کیا جا سکے۔ اس کے بیس برس بعد افغانستان نے اسے اپنی سرحد تسلیم کر لیا تھا اور تب سے اس علاقے کے لوگ گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ علاقہ چین کے سرحد سے 76 کلومیٹر دور واقع ہے جبکہ اس کی شمالی سرحد تاجکستان اور جنوبی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔
تاجکستان کی طرف جانے والی سڑک سیل ہے جبکہ تاجکستان کے سرحدی دیہات میں بجلی کے ساتھ ساتھ ہر چھت پر ایک سٹیلائٹ ڈش بھی نظر آتی ہے۔
اس افغان سرحدی علاقے میں تقریباﹰ سترہ ہزار اسماعیلی خاندان آباد ہیں، جو آغا خان کے پیروکار ہیں۔ آغا خان گزشتہ انچاس نسلوں سے آ رہے اس سلسلے کے موجودہ روحانی سربراہ ہیں اور ان کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے مغرب میں آغا خان خاندان گلیمرس طرز زندگی کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس خاندان کا جھکاؤ ماڈلز اور مووی اسٹارز سے شادیوں کا ہے۔ گھوڑوں کی ریس ان کا پسندیدہ ترین کھیل ہے جبکہ غریب پیروکاروں سے سالانہ اپنے جسم کے وزن کے برابر سونا نذرانے کے طور پر قبول کرنا بھی ایک اہم روایت ہے۔
دوسری جانب واخان کے رہنے والے زیادہ تر تاجک نسل کے اسماعیلوں کے لیے کاغذی پیسہ تقریباﹰ بیکار چیز ہے۔ کیوں کہ یہاں امیر ہونے کا معیار پالتو جانور اور گندم کی روٹی ہے۔
جب سے کابل حکومت نے اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ دیا ہے، تب سے وہاں کے لوگ بھی خوفزدہ ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت ان سے زمینیں چھین سکتی ہے جبکہ سیاحوں کے آنے کی صورت میں یہ علاقہ طالبان کی نظر میں بھی آ سکتا ہے۔