افغانستان: پانچ خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا
17 دسمبر 2016افغانستان میں خواتین کے خلاف ہونے والوں حملوں کے سلسلے کے اس تازہ واقعے میں ان خواتین کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے کام کے لیے روانہ ہوئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 15 برس سے طالبان کی قیادت میں جاری بغاوت اور افراتفری سے خواتین بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ بم دھماکوں میں ہلاکتوں کے علاوہ وہاں خواتین کو عزت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان سب کی ایک وجہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں سکیورٹی کی انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال اور بڑھتا ہوا تشدد بھی ہے۔
قندھار کے گورنر کے ترجمان سمیم خوپُل وَک کے مطابق ہلاک ہونے والی خواتین قندھار ایئرپورٹ پر خواتین مسافروں کی تلاشی وغیرہ کے عمل کی انچارج تھیں اور انہیں ایک پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی نے ملازمت دی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا مزید تھا، ’’ایک موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے آج صبح ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونے والی ان کی ویگن کا پیچھا کیا اور اس پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں یہ پانچوں خواتین اور ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گئے۔‘‘
ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ کی طرف سے قبول نہیں کی گئی تاہم حکومت کے خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف طالبان ان خواتین کے بھی خلاف ہیں جو گھروں سے نکل کر کوئی کام کرتی ہیں۔
سال 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغان خواتین کی طرف سے طویل جدوجہد کے بعد تعلیم اور کام کرنے کا حق حاصل کرنے کے حوالے انہیں کامیابیاں تو حاصل ہوئی ہیں تاہم روئٹرز کے مطابق اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ ملک میں خراب ہوتی ہوئی سکیورٹی کی صورتحال کے سبب صورتحال ایک بار پھر طالبان کے دور حکومت جیسی نہ ہو جائے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے بے انتہا دباؤ کے باوجود افغانستان آج بھی خواتین کے لیے ایک انتہائی مشکل ملک ہے۔