افغانستان میں سو سے زائد افراد ہلاک
6 مئی 2009مرنے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ ریڈ کراس نے ہلاک ہونے والوں میں شہریوں کی بڑی تعداد کی تصدیق کردی ہے۔ افغان صدر نے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کو آج امریکی صدر سے ملاقات میں اٹھایں گے۔
پیر سے جاری فضائی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد سو سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ یہ حملہ پچھلے آٹھ برسوں کے مقابلے میں سب سے شدید تصور کیا جارہا ہے۔ نائب صوبائی گورنر محمد یونس رسولی کے مطابق فراہ سے منگل کے دن لائی گئی لاشوں میں بیس بچوں کی ہیں۔
فراہ کے گورنر روحل امین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے لہذا مرنے والوں کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ حملہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اتحادی فوجوں پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند عناصر نے عام شہریوں کے گھروں میں پناہ لے رکھی تھی۔
شہریوں کی مدد کی اپیل پر ریڈ کراس نے اپنی ایک ٹیم کابل سے فراہ روانہ کی تھی۔ ریڈ کراس کی نمائندہ جیسیکا بیری نے خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس کو حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں بتایا کہ "اس حملہ میں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں اور ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں"۔ مرنے والوں میں ایک افغان ریڈ کراس سوسائٹی کا رضاکار بھی تھا۔
اسی حوالے سے فراہ صوبے کے پولیس کے چیف عبدالغفار وطندار نے تیس سے زائد افراد کےہلاک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تعداد سو تک ہو سکتی ہے۔ وطن دار کا مزید کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں کتنے عسکریت پسند اور کتنے عام شہری تھے اس کا ابھی انداذہ لگانا باقی ہے"
امریکی انتظامیہ نے بھی ایک برگیڈیر جنرل کو اس واقعے کی انکوائری کے لئے روانہ کیا ہے۔ جبکہ افغان صدر جو کہ واشنگٹن میں امریکی صدر سے ملاقات کی غرض سے موجود ہیں، نے بھی اپنی انتظامیہ کو ان حملوں کی تفصیلات اور ان کے اثرات معلوم کرنے کو کہا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں امن کی صورتحال پر واشنگٹن میں امریکی صدر کی اپنے پاکستانی اور افغان ہم منصب سے گفتگوبدھ کو شیڈیول ہے۔
طالبان کے خلاف اس جنگ میں افغانستان میں اتحادی فوج کے تقریبا ستر ہزار فوجی تعینات ہیں جن میں سے آدھے امریکہ کے ہیں۔ اور عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مزید اکیس ہزار فوجی افغانستان میں بھیجنا چاہتا ہے۔