افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافہ
12 دسمبر 2008افغانستان میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت نے امریکہ اور مغربی ملکوں کو چونکا دیا ہے اور شورش زدہ اس ملک میں اتحادی فوجیوں کی تعداد اور ان کے قیام کی مدت دونوں ہی پہلو مزید اہم ہوتے جا رہے ہیں۔
ابھی گزشتہ دنوں امریکی سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے جنوبی افغانستان میں قندھار میں واقع نیٹو کے ایک بیس کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی آئندہ سال کے شروع میں مکمل ہو جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان فوجیوں کو صورت حال پر قابو پانے میں تین سے چار سال مزید درکار ہوں گے۔ انہوں نے کہا: "مجھے یقین ہے کہ افغانستان میں استحکام کے لئے طویل عرصے تک مستقل مزاجی دکھانی ہوگی۔ اس میں کتنے سال لگیں گے یا کتنے مزید فوجی درکار ہوں گے، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔"
امریکی سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ افغانستان میں استحکام لانے کے لئے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی اب تک کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے تقریبا 65 ہزار فوجیوں میں سے 30 ہزار کا تعلق امریکہ سے ہے۔
افغانستان کے دورے کے موقع پر رابرٹ گیٹس نے بتایا کہ اضافی فوجیوں کی پہلی کمک آئندہ سال جنوری میں افغانستان پہنچ جائے گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ دو مزید بریگیڈ موسم بہار تک تعینات کر دی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اضافی فوجیوں میں سے بیشتر کو افغانستان کے جنوبی علاقوں میں تعینات کیا جائے گا جہاں طالبان عسکریت پسند مضبوط ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر امریکی جنرل ڈیوڈ McKiernan نے کچھ عرصہ قبل ہی افغانستان میں مزید 20 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ امریکہ عراق میں تعینات اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں میں سے کتنے واپس بلا سکتا ہے۔ اور کب تک؟
رابرٹ گیٹس منتخب صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں بھی سیکریٹری دفاع رہیں گے۔ تاہم افغانستان میں تعینات نیٹو فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے عسکریت پسندوں پر قابو پایا جاسکتا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔