1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں اضافی امریکی افواج کی تعیناتی، توقعات اور خدشات

28 فروری 2009

جنوبی افغانستان میں اضافی سترہ ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے کیا مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں گے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو زبان زد عام ہے ۔ تاہم اس بارے میں عوامی توقعات کے مقابلے میں اتحادی افواج کی توقعات کافی زیادہ ہیں

https://p.dw.com/p/H14v
اتحادی فوج کی گاڑیاں افغانستان میں دوران گشتتصویر: AP

افغانستان میں بین الااقوامی اتحادی فوج ISAF کے ڈپٹی کمانڈر لیفٹینٹ جنرل جم ڈوٹن نے افغانستان میں اضافی امریکی افواج کی تعیناتی کی آمد کے حوالے سے کسی خاص تاریخ کا زکر تو نہیں کیا ہے تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ فوجی جتنی جلدی ممکن ہوا افغانستان پہنچ جائیں گے۔ ان فوجیوں کو قندہار ، ہیلمند اور زابل میں تعینات کیا جائے گا۔ جم ڈوٹن کہتے ہیں۔

''یہ فوجی دو اصولوں کے تحت کام کریں گے ایک تو یہ کہ پاکستان کے ساتھ ملحقہ افغان سرحد کو محفوظ بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ خاص طور پر ان علاقوں میں قیام امن کو ممکن بنانا جائےجہاں ہمیں ابھی تک سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا ہے۔''

ISAF Soldaten der Bundeswehr Afghanistan
افغانستان میں اس وقت امریکہ کے علاوہ نیٹو ممالک کی فوج بھی تعینات ہےتصویر: AP

یہ امریکی فوجی تین بریگیڈ پر مشتمل ہوں گے۔ ایک بریگیڈ توپ خانے پر مشتمل ہوں گا دوسرا ٹینک بردار دستے جبکہ تیسرا بریگیڈ فضائی جنگی کارروائیوں کے ماہر فوجیوں پر مشتمل ہوگا۔ ISAF کی اعلی قیادت نے بالکل اسی طرح کے اضافی فوجی دستوں کی افغانستان میں تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان امریکی فوجیوں کی مسلسل حرکت میں رہنے کے لئے اضافی طور پر 120 جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل ہو رہے گی۔

کابل میںISAF اتحادی افواج کی مدد اور نقل و حرکت کے نگران اعلی جرمن فوجی اہلکار ہانس ایرش آنٹونی کہتے ہیں۔ '' سب سے پہلا کام مسلح مزاحمت کے خلاف جنگ ہو گا''

افغانستان میں غیر ملکی افواج کی تعداد ستر ہزار کے قریب ہے لیکن پھر بھی ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان کی مسلح مزاحمت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران وہاں طالبان نے اتنے زیادہ حملے کئے جتنے پہلے کبھی بھی دکھنے میں نہیں آئے۔ اس صورتحال میں امریکہ نے افغانستان کے شورش زدہ جنوبی علاقوں میں مزید فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان میں ISAF کے فوجی وہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی قیادت میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور ان فوجیوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ISAF Soldaten der Bundeswehr Afghanistan
افغانستان میں متعین جرمن فوجی گشت کرتے ہوئےتصویر: AP

افغانستان میں اسی سال صدارتی انتخاب ہونا بھی طے ہے اور اس دوران سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لئے ایک بار پھر فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ صدارتی الیکشن کے دوران سلامتی انتظامات کے اعلی فوجی اہلکار جم ڈوٹن کہتے ہیں:'' یہ تعداد ایک ہزار تک ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ۔ کیونکہ نئے سرے سے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ ''

افغانستان میں اضافی امریکی افواج کی تعیناتی پر عوام کے قیام امن کے حوالے سے مختلف خیالات ہیں۔ ایک افغان باشندہ خیال کرتا ہے۔'' ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ خود کش حملے تو بند ہونے کو ہی نہیں آ رہے ہیں''

دری زبان بولنے والے ایک اور افغان شہری کا کہنا ہے: '' غیر ملکی فوجی دستے القاعدہ کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں اور منشیات کے مسلے پر قابو پانا چاہتے ہیں، تاہم وہ اب تک ان دونوں مقاصد سے کوئی بھی حاصل نہیں کر سکے۔ میرے خیال میں ان مقاصد کے لئےغیر ملکی قوتوں کو افغان سیکورٹی دستوں کی تربیت کرنا اور انہیں مسلح کرنے کا عمل بہتر بنا ہو گا۔''

پیشے کے اعتبار سے ایک مال بردار گاڑی کے ڈرائیور، افغان شہری نے اضافی امریکی فوجیوں کی مجوزہ تعیناتی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا۔ '' غیر ملکی ہمارے لئے اچھے ہیں لیکن اور بھی اچھی بات یہ ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو روزگار کے زیادہ موقع میسر آئیں اور کابل میں صدر بھی کوئی نیا ہو۔''

دریں اثنا امریکہ میں نئی انتظامیہ نے افغانستان اور پاکستان کے لئے اپنی حکمت عملی میں جائزے کا حکم صادر کیا ہے تاکہ خطے کی صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد اگر ضرورت ہو تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار کو بدلا جا سکے۔