افغانستان حکومت کا طالبان کے ساتھ معاہدہ
27 جولائی 2009افغانستان کی وفاقی حکومت کے مطابق ملک کے شمال مغربی صوبے بادغیس کے قبائلی عمائدین نے کابل حکومت کی ایماء پر مقامی طالبان کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ وہ بیس اگست کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں رخنہ نہیں ڈالیں گے۔ کابل حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے طالبان اپنے زیرِ قبضہ کئی اہم علاقوں کا کنٹرول حکومت کے حوالے کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
طالبان کی جانب سے ابھی تک اس معاہدے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ بعض خبر رساں اداروں کے مطابق طالبان کے ایک ترجمان یوسف احمدی نے معاہدے کی تردید کی ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان سیامک ہراوی کے مطابق بادغیس کے ضلع بالا مرغاب میں جاری لڑائی ہفتہ کے روز فائر بندی کے معاہدے کے بعد روک دی گئی اور اس معاہدے کو ممکن بنانے کے لئے علاقے کے ’بزرگوں‘ نے کردار ادا کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے بیس دن تک مذاکرات کئے گئے۔
صدارتی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ معاہدہ دوسرے صوبوں کے لئے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مغربی افغانستان میں تعینات افغان کمانڈر جالندر شاہ نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے قبضے سے چھڑائے جانے والے تین علاقوں سے فوجیں نکال لی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ بیس اگست کو افغان عوام اپنے صدر کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالیں گے اور امریکہ اور مغربی ممالک کی کوشش ہے کہ طالبان کو ان انتخابات میں خلل ڈالنے سے ہر حال میں روکا جائے۔ ایک طرف برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کہہ چکے ہیں کہ ’اعتدال پسند‘ طالبان سے بات چیت کرنا ضروری ہے تو دوسری طرف برطانوی افواج نے طالبان کے خلاف پانچ ہفتوں سے ملک کے جنوب میں ’آپریشن پینتھر کلاء‘ شروع کر رکھا تھا جس کے بارے میں برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے پیر کے روز کہا کہ یہ آپریشن کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے۔
برطانوی افواج بھی اگرچہ اب یہ اعلان کر چکی ہیں کہ صوبے ہلمند میں اس آپریشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے، تاہم انہی فوجی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس آپریشن میں کامیابی کا مطلب یہ نہیں کہ طالبان کے خلاف حتمی فتح حاصل ہو گئی ہے۔
بیک وقت ’معتدل‘ طالبان کے ساتھ معاہدے اور فوجی کارروائیاں امریکہ اور نیٹو کی اس پالیسی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے صدارتی انتخابات کو بغیر تشدد کے ممکن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ معاہدوں اور فوجی کارروائیوں میں کامیابی کے دعووں کے باوجود نیٹو اور افغان حکومت آزاد، شفاف اور تشدد سے پاک انتخابات کو کس حد تک ممکن بنا سکیں گے۔