1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام اور ہم جنس پرستی، ممانعت یا اجازت؟

22 مئی 2019

ہم جنس پرستی سے متعلق مختلف مذاہب بالخصوص مسلم مکاتب فکر میں ایک سخت رائے رہی ہے، مگر حالیہ کچھ عرصے میں مختلف مسلم دانشور اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ItMq
LSBTI-Rechte in Lateinamerika
تصویر: Getty Images/AFP/R. Arboleda

ابراہیمی مذاہب میں اس معاملے کو ’موضوع ممنوعہ‘ کے بہ طور ایک طویل عرصے تک یک سر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، مگر اب نہ صرف کیتھولک چرچ اس معاملے پر کسی حد تک کھلے پن کا مظاہرہ کر رہا ہے، بلکہ مسلم مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے چند دانش ور مختلف مسلم معاشروں میں ہم جنس پسندی کے موضوع پر گفت گو کرتے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور مسلم کتب اس موضوع کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ ڈاکٹر محمد سمیر مرتضیٰ ایک مسلم اسکالر ہیں، جو اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہیں۔

تائیوان: ہم جنس پرست اب آپس میں شادیاں کر سکیں گے

برونائی: ہم جنس پرستی پر سزائے موت معطل

مسلم دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس معاملے کو یک سر رد کرتی ہے۔ ہم جنس پسند مرد اور خواتین مسلم معاشروں میں شدید نوعیت کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، جب کہ بعض ممالک میں تو قانونی طور پر اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا موت تک رکھی گئی ہے۔

مختلف مسلم اسکالر ہم جنس پسندی سے متعلق مذہبی بیانیوں کو نئے انداز سے دیکھ رہے ہیں اور مذہبی احکامات کی موجودہ تشریحات کو نادرست سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ خیالیہ ابھی فقط ابتدا جیسا ہے اور اب بھی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ان پرانی تشریحات پر سوالات قبول کرتی نظر نہیں آتی۔

Dr. Mohammad Sameer Murtaza Islamwissenschaftler
تصویر: DW/N. Ahmadi

جرمنی کی فریڈرِش ناؤمان اشٹفٹُنگ کے تعاون سے جرمن شہر مائنز میں اس موضوع پر ایک مذاکرے کا اہتمام ہوا، جس میں اسلامی اسکالر ڈاکر محمد سمیر مرتضیٰ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر مرتضی نے کہا کہ قرآن میں ہم جنس پرستی سے متعلق کچھ بھی طے شدہ احکامات موجود نہیں ہیں۔’’جب ہم ہم جنس پسندی کی بات کرتے ہیں، تو ہماری گفت گو زیادہ تر قومِ لوط کی کہانی سے جا ملتی ہے۔ مگر قوم لوط کی کہانی اصل میں ہم جنس پسندی کی کہانی نہیں تھی بلکہ بائی سیکسچوئل اور جنسی تشدد کی کہانی تھی۔ شاید مسلم برادری کو ہم جنس پسندوں سے متعلق اپنی روش کو ازسر نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ہم جنس پسند اللہ، ملائیکہ، پیغمبروں، آسمانی کتب اور یوم آخر پر یقین رکھتا ہے، تو کیا وہ مسلمان نہیں؟ ہمیں اس موضوع پر ضرور بات کرنا چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر مرتضیٰ کے مطابق ہم جنس پسندوں کی جنسی رغبت ان کی مرضی یا منشا کی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی تخلیق ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ چاہتے ہیں کہ مسلم اسکالرز اس موضوع پر سنجیدہ مکالمت کریں، ’’میرے خیال میں ہمیں بہت تحمل اور تدبر سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم جنس پسندوں کو لعن طعن کرنا کوئی درست عمل ہے؟ کیوں کہ جنسی رغبت، چاہے آپ ہیٹرو سیکسچوئل ہوں یا ہومو سیکسچوئل یا آپ کی مرضی پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ آپ اس فطرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یعنی جیسا خدا نے آپ کو پیدا کیا۔ اگر خدا یہ فیصلہ کرتا ہے اور انسانوں کا اس طرح تخلیق کرتا ہے، تو ہمیں ہر حال میں مسلم کمیونیٹی میں اس بابت بات کرنا چاہیے۔‘‘

اس معاملے پر زیادہ تر مسلم دانش ور اتفاق رکھتے ہیں کہ انسان ’فطری طور پر ہیٹرو سیکسچوئل‘ پیدا ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک ہومو سیکسچوئلٹی فطرت کے اصولوں سے انحراف ہے، اسی تناظر میں وہ اسے قابل تعزیر جرم سمجھتے ہیں۔ مگر چند مسلم اسکالر بہ شمول ڈاکٹر مرتضیٰ سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر مسلم دنیا میں گفت گو کی ضرورت ہے، تاکہ اسلام کی تعلیمات سے متعلق غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو سکے۔