’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کروں گا، اوباما
29 ستمبر 2016امریکی صدر باراک اوباما نے ورجینیا کے ایک عسکری مرکز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کی اصل شکل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے بگاڑ دیتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بظاہر ایک من گھڑت یا خود بنایا گیا ایک مسئلہ ہے،’’اسلام، اسلامی عقائد اور شدت پسندوں کی جانب سے اسلامی تشریحات کو اپنی بربریت کے جواز کے طور پر استعمال کرنے کے مابین کوئی تعلق ہے۔‘‘
اوباما کے بقول یہاں پر ایسے لوگ ہیں، جو بچوں کو مارتے ہیں، جو مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، جنسی غلام بناتے ہیں اور کوئی بھی مذہب ان سب چیزوں کی کسی طرح سے بھی اجازت نہیں دیتا اوزر نہ ہی ان کو جائز قرار دیتا ہے۔ اوباما کے بقول وہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے ان قاتلوں اور دنیا بھر کے ارب سے زائد مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ملاتے نہیں اور ان کے مابین فرق رکھتے ہیں، ’’امریکا میں آباد مسلمان پرامن ہیں، ذمہ دار ہیں ، یہ لوگ ملکی پولیس اور فوج میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، یہ فائر فائٹرز بھی ہیں، استاد بھی، پڑوسی بھی اور دوست بھی۔‘‘
اوباما کے بقول امریکا اور بیرون ملک میں کچھ مسلم خاندانوں سے بات کر کے علم ہوا،’’جب ہم ان تنظیموں کو مسلم دہشت گرد تنظیمیں کہتے ہیں تو ہمارے دوستوں تک یہ بات ایسے پہنچتی ہے کہ جیسے اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس موقع پر ان افراد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ ایک سوال کے جواب میں اوباما کا کہنا تھا کہ اس طرح ہمارے لیے دہشت گردی سے خلاف جاری کارروائیوں میں تعاون حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔