اسرائیل: پارلیمانی انتخابات کےلئے ووٹنگ
10 فروری 2009یہی وجہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے تمام اُمیدوار اپنی مستقبل کی پالیسیوں میں سلامتی کے موضوع کو بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی پارلیمان کی 120 نشستوں کے لئے ہونے والی پولنگ میں 53 لاکھ شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ملک میں نو ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں۔ بارش اور تیز ہواؤں کے باوجود پولنگ کا ٹرن آؤٹ تسلی بخش قرار دیا جا رہا ہے۔ حکام کے مطابق ووٹنگ کا سلسلہ بند ہونے سے پانچ گھنٹے پہلے ٹرن آؤٹ کی شرح 42 فیصد تھی جو 2006 کے مقابلے میں تین فیصد زائد ہے۔
پولنگ کے دوران اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے پر فلسطینی گزرگاہیں بند کر رکھی ہیں، فلسطینیوں کو صرف ہنگامی حالات میں طبی ضروریات کے لئے ہی اسرائیل میں داخلے کی اجازت ہے۔ پولنگ کا عمل عمل مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے تک جاری رہے گا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق غزہ کے حالیہ بحران کے بعد ووٹروں کے لئے ملکی سلامتی کا مسئلہ اہم ہے۔ دائیں بازو کی لکوڈ پارٹی اور قادیمہ پارٹی کے اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ سخت ہے۔ سابق وزیر اعظم اور لکوڈ پارٹی کے رہنما نیتن یاہو کی ممکنہ فتح کے بارے چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ تاہم قادیمہ پارٹی کی اّمیدوار اور وزیر خارجہ زیپی لیونی ان کی قریبی حریف ثابت ہو رہی ہیں۔ جیت کی صورت میں وہ ملک کی دوسری خاتون وزیر اعظم بن سکتی ہیں۔ زیپی لیونی نے تل ایبیب میں ووٹ ڈالنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں عوام پر زور دیا کہ وہ ووٹ ضرور ڈالیں: "یہ بہت ضروری ہے کہ سب لوگ ووٹ ڈالیں، مجھے ایک ایک ووٹ کی ضرورت ہے"
نیتن یاہو نے یروشلم میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور وہ آج اس تبدیلی کا انتخاب کر لیں گے۔ نیشنلسٹ اسرائیل بیتینو پارٹی کے سربراہ آویگدور لیبرمان نے مغربی کنارے کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا: "ہمیں اندرون اور بیرون ملک دہشت گردی کا سامنا ہے تاہم ملک کے اندر دہشت پسندانہ کارروائیاں زیادہ خطرناک ہیں۔"
منگل کے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ گزشتہ سال اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی جانب سے بدعنوانی کےالزامات پر عہدہ چھوڑنے کے اعلان کے بعد کیا گیا۔ تاہم اس سے قبل وزیر خارجہ زیپی لیونی نے انتخابی عمل کے بغیر ہی حکومت بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔
اُدھر اسرائیل اور فلسطنی شدت پسندوں کے مابین کشیدگی بدستور تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ لبنان میں حماس کے ایک سینئر رہنما اسامہ حمدان نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی جماعت اسرائیلی انتخابات کے نتائج کی منتظر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہی اس بات کا فیصلہ ممکن ہو گا کہ غزہ میں طویل المدتی فائربندی کا معاہدہ ممکن ہے یا نہیں۔
مصر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کی کوششیں کر رہا ہے جبکہ حماس کا ایک وفد مصری حکام سے مذاکرات کے لئے قاہرہ میں موجود ہے۔
فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس دورہ پولینڈ کے دوران اسرائیل کی آئندہ حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ مصر کے صدر حسنی مبارک نے بھی پیر کو فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی سے ملاقات میں اُمید ظاہر کی تھی کہ غزہ میں آئندہ ہفتے تک امن بحال ہو جائے گا۔