اسرائیل میں مخلوط حکومت کے مزاکرات ناکام
27 فروری 2009وزیر اعظم کے عہدے کے لئے سب سے مضبوط دعوے دار بینجامن نیتن یاہو اپنی سیاسی حریف زیپی لیونی کو مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے لئے قائل نہیں کرسکے ہیں۔
اسرائیل میں وسیع مخلوط حکومت کی تشکیل کے عمل کو اُس وقت ایک اور دھچکہ لگا جب سخت گیر موٴقف کے حامل سابق وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو اور زیپی لیونی کے مابین حکومت سازی کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔
ناکام مذاکرات کے بعد اب ایسے امکانات مزید روشن ہوگئے ہیں کہ اسرائیل کی نئی حکومت سخت گیر سیاسی پارٹیوں پر مبنی ہوگی۔ مخلوط حکومت کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے نیتن یاہو کے پاس ابھی بھی پانچ ہفتوں کا وقت ہے۔
زیپی لیونی نے تاہم مفاہمت کے لئے تمام راستے بند نہیں کئے ہیں۔ تل ابیب میں نیتن یاہو کے ساتھ مذاکرات کے بعد لیونی نے کہا اُن کے نزدیک جو اہم مسائل ہیں، اُن پر دونوں سیاست دانوں کی رائے جُدا ہونے کے باعث اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔
لیونی نے کہا کہ خطّے میں اسرائیلی ریاست کی بقاء کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام بھی ممکن بنایا جاسکے۔ ’’خطّے میں دو ریاستوں کا قیام کوئی کھوکھلہ نعرہ نہیں ہے۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے جمہوری اسرائیلی ریاست کے وجود کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
کدیمہ پارٹی کی سربراہ اور ملک کی وزیر خارجہ زیپی لیونی نے مزید کہا: ’’ نیتن یاہو کے ساتھ میری ملاقات اُن نکات پر اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگئی، جو حکومت میں شمولیت کے لئے اہم ہیں۔‘‘
لکڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو کے مطابق اُنہوں نے لیونی کو شراکت اقتدار کے تعلق سے ایک مخلصانہ پیشکش کی اور یہ یقین بھی دلایا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ سفارتی عمل کو فروغ دیں گے لیکن اس کے باوجود مذاکراتی عمل کامیاب نہیں ہوسکا۔ ’’ لیونی کی طرف سے مکمل انکار سامنے آیا، وہ اتحاد کے لئے راضی نہیں تھیں۔‘‘
سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا:’’میرے لئے یہ بے حد افسوس کی بات ہے کہ محترمہ لیونی نے سیدھے سیدھے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اُنہوں نے نہ صرف متحدہ حکومت میں شامل ہونے سے بلکہ مشترکہ مذاکرات کے لئے ٹیمیں تشکیل دینے سے بھی انکار کردیا۔‘‘
لیونی اور نیتن یاہو کے درمیان ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے تعلق سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لیونی مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کے حق میں ہیں جبکہ نیتن یاہو اس کے زبردست مخالف ہیں۔