ازبکستان الیکشن: صدر کے حامیوں کی کامیابی یقینی
27 دسمبر 2009سن1991تک سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی جمہوریہ اور موجودہ ازبکستان کہلانے والے ملک میں اتوار کے انتخابات موجودہ صدر اسلام کریموف کے لئے خاصے اہم تصور کئے جارہے ہیں کیونکہ اِن میں کامیابی سے وہ اپنی حکومت پر گرفت کو زیادہ مضبوط کر سکیں گے۔ مغربی مما لک جو کبھی اِس وسطی ایشیائی ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دوسرے اقسام کے حکومتی جبر پر آواز بلند کرتے تھے اب وہ بھی افغانستان میں طالبان سرگرمیوں کے تناظر میں چپ سادھے ہوئے ہیں کیونکہ فی الوقت ازبکستان میں کمزور حکومت انتہاپسندوں کو دوبارہ شہ دے سکتی ہے۔ مغربی ملکوں کی خواہش ہے کہ وہ تاشقند حکومت کو افغانستان میں طالبان کی سرکوبی کے سلسلے میں امریکی قیادت میں جاری کوششوں میں کسی طور شامل کرسکیں۔ اِس کے علاوہ مغربی اقوام کے لئے ازبکستان کے اندر عدم سیاسی استحکام پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ملک افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے لئے سامان کی ترسیل کا نیا راستہ ہے۔
ازبکستان کے اکہتر سالہ صدر اسلام کریموف گزشتہ بیس سالوں سے اپنی غریب عوام پر سخت اقتصادی پالیسیوں کےساتھ حکمرانی کر رہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ سر پر آن پہنچی ہے لیکن انتخابی مہم کا مجموعی تاثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اتوار کے الیکشن میں بظاہر کریموف کے اتحادیوں کو پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں تمام کی تمام نشستیں یقینی طور پر حاصل ہوجائیں گی۔ ایوان زیریں کی ایک سو پچاس سیٹوں کے لئے الیکشن کا انعقاد ہو گا۔ چار سیاسی پارٹیاں انتخابی عمل میں شریک ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اسلام کریموف کی حمایتی ہیں۔ چار میں سے ایک سیاسی جماعت، ماحول دوست پارٹی ہے، جوصرف ازبکستان کے اندر ماحولیات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اُس کو پندرہ نشستیں ملنا یقینی ہے۔ یورپی سیکیورٹی اور تعاون کی تنظیم نے ازبکستان کی حکومت کی جانب سے تنظیم کی سابقہ سفارشات پر عمل نہ کرنے پر اِس بار اپنے انتخابی مبصرین روانہ نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
سن دو ہزار پانچ میں ازبکستان کے مشرقی شہر اندی ژان میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں پر سرکاری سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے واقعے کے بعد مغربی ملکوں نے تاشقند کے ساتھ تعلقات میں سرمہری پیدا کر لی تھی۔ رواں سال کے دوران ازبک حکومت نے افغانستان میں متعین امریکی فوج کے لئے غیر فوجی سامان کی ترسیل پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ اسی سال اکتوبر میں یورپی یونین نے ازبکستان پر عائد پابندیوں کو بھی ختم کردیاہے۔
سخت حکومتی پالیسیوں کے تناظر میں دارالحکومت تاشقند کے شہری غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ یہ شہری ٹیلی فون پر بھی بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اِس کی ایک وجہ نئے سال کی آمد بھی ہے اور اِسی باعث عام لوگ الیکشن کے بجائے نئے سال کی خوشیوں کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ ازبکستان میں صدر کریموف کے خلاف تنقیدی جملے ادا کرنے کا مقصد جیل جانا خیال کیا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ انسانی حقوق کے لئے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں کے خیال میں ازبکستان میں حکومتی جبر کی سطح سب سے زیادہ ہے اور وہاں کی آبادی کئی بنیادی حقوق سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ ازبکستان میں کوئی اپوزیشن کی جماعت سرگرم نہیں ہے۔ مغربی مبصرین کے مطابق وہاں ہونے والے انتخابات کو کسی طور شفاف اور آزادانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اعتدال پسند سیاستدان یا تو جیلوں میں مقید ہیں یا پھر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ازبکستان کے اندر مٹھی بھر انسانی حقوق کی بات کرنے والوں میں سے ایک، صورت اکراموف کے خیال میں ازبکستان پر یاسیت چھائی ہوئی ہے۔
رپورٹ : عابد حسین
ادارت : شادی خان