اب ’دیوی‘ ایم بی اے کرنا چاہتی ہے
22 جنوری 2017نیپالی لڑکی چانیرا بجرا چاریہ آج کل ایک ایسی سماجی و معاشرتی تبدیلی سے گزر رہی ہے، جس میں وہ پہلے ایک اہم مذہبی شخصیت تھی اور اب ایک عام لڑکی کے طور پر اُسے اپنے گھربار اور معاشرے میں عام زندگی بسر کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اب نیپال کی ایک عام لڑکی کی طرح سے زندگی بسر کرنے کی کوشش میں ہے۔
اکیس برس کی چانیرا نے حال ہی میں وسطی نیپال کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا ہے۔ وہ اپنی تعلیم مزید جاری رکھتے ہوئے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ یہی لڑکی کچھ برس قبل تک نیپالی مذہبی سماج میں دیوی کے طور پر مقدس خیال کی جاتی تھی اور ہزاروں افراد اُسے سنہرے رتھ پر بٹھا کر مذہبی تہواروں کی زینت بنایا کرتے تھے۔
چانیرا بجرا چاریہ کی سن 2001 میں عمر چھ برس تھی اور تب وہ ہندو دیوتا تالیجو کی داسی یا کماری کے طور پر منتخب کی گئی تھی۔ نیپال کی ہندو رسومات کے مطابق حاضر تالیجو دیوتا کی کماری یا داسی کے لیے کم سن لڑکی کا انتخاب صدیوں سے کیا جاتا ہے۔
کماری کے طور پر یہ نوعمر لڑکیاں کسی مندر کے ساتھ منسلک مکان میں رہتی ہیں۔ ہر صبح انہیں آنکھوں کے ارد گرد گہرے میک اپ کر کے مذہبی پوجا میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح چانیرا بجرا چاریہ نے اپنا بچپن معمول کی طرح نہیں گزارا۔ پوجا کرنے والے کماری کے پاؤں کو چھونا خوش قسمتی کے طور پر لیتے ہیں۔
چانیرا نو برس تک مندر میں رہی اور سن 2010 میں اُسے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس کو ابھی بھی اپنے کالج کے دوسرے طلبا کے ساتھ دوستی اور تعلقات بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ چانیرا کے مطابق کالج کے طلبا اُسے بہت ریزرو خیال کرتے ہیں۔ وہ ابھی بھی ایک شرمیلی سی لڑکی ہے اور اپنا زیادہ وقت نیپالی زبان میں لکھے ہوئے ناول پڑھتے ہوئے گزارتی ہے۔
چانیرا نے اپنا بچپن نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے جنوب میں واقع پتن کے ایک مندر میں گزارا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ نیپال کی نوار کمیونٹی کے لوگ اپنی تین سے پانچ برس تک کی لڑکیوں کو مندروں کے پجاریوں کے پاس، تالیجو دیوتا کی کماری بنانے کے لیے بھیجتے ہیں۔ لڑکی کے انتخاب میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اُسے کبھی کوئی ایسی چوٹ نہ لگی ہو، جس میں اُس کا خون نکلا ہو۔ ایسی کماریوں کو بالغ ہونے پر بارہ سے سولہ برس کی عمر کے دوران مندر سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔