1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آموں کی مٹھاس سے محروم بھارتی باغات اور انڈسٹری کے مزدور

عابد حسین31 مئی 2016

بھارت آم پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ بھارت میں درختوں سے آم توڑ کر اِس کی پروسسینگ تک کا کام کرنے والے کارکنوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ایک مزدور کی یومیہ آمدن دو ڈالر کے برابر ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ixgq
بھارتی شہر لکھنؤ کی مارکیٹ میں آم کی ایک ریہڑھیتصویر: DW/A. Chatterjee

بھارتی ریاست تامل ناڈو کے کرشنا گیری سے دھرم پوری کے علاقے آم کے باغات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ اِن باغات سے آم اکھٹے کرنے بعد پہلے ایکسپورٹ ہاؤسز میں لایا جاتا ہے تاکہ انہیں فوڈ پروسسینگ فیکٹریوں تک جلد از جلد پہنچایا جا سکے۔ آم کے گودے سے تیار کیے جانے والے مشروبات گرمی کے موسم میں سپر مارکیٹوں میں بہت زیادہ فروخت ہونے والی اشیا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں یہ تاثر حقیقت پر مبنی ہے کہ آم کو اکھٹا کرنے سے لے کر پروسسینگ تک جو ورکرز کام کرتے ہیں ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔

Pakistan Obst Mango
پاکستان بھی آم پھل ایکسپورٹ کرنے والا ملکتصویر: DW/T. Shahzad

ایسا بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ بارش کی کمی، عالمی منڈیوں میں مسابقت اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے بھی آم پیدا کرنے والوں کے منافع میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے ایک انٹرنیشنل غیرسرکاری تنظیم جسٹس مشن کے میتھیو جوجی کا کہنا ہے کہ آم کی پیداوار سے لے کر گودے سے مختلف مصنوعات کی تیاری تک بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے اور کم اجرتوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کو کئی قسم کی پابندیوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارتی ریاست تامل ناڈو میں آم سے تیار کی گئی مصنوعات کی صنعت میں افزائش زیادہ کام اور کم اجرتوں کی وجہ سے ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اجرتوں کا تعین پھلوں کی فصل اور اُس کی مانگ کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ آم کے موسم میں کئی جُز وقتی ورکرز دوسری ریاستوں سے تامل ناڈو پہنچتے ہیں۔

Bildergalerie Mangos in Bangladesch
بنگلہ دیش میں بھی آم کی مختلف اقسام دستیاب ہیںتصویر: DW/M. Mamun

میتھیو جوجی کے مطابق کام کے دوران کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جاتی اور ورکز کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے کیونکہ مزدوروں کی آزادنہ نقل و حرکت کو محدود رکھا جاتا ہے۔ جسٹس مشن کے نمائندے کے مطابق یہ حالات مزدوروں کے حقوق کے منافی ہیں اور ایک طرح سے محکومی قرار دیے جا سکتے ہیں۔

گلوبل سَلیوری انڈیکس کے مطابق بھارت میں اٹھارہ ملین سے زائد افراد جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ انڈیکس آج منگل کے روز آسٹریلیا میں قائم ادارے ’واک فری فاؤنڈیشن‘ نے جاری کیا ہے۔ مشکلات کا اندازہ اس ایک واقعے سے کیا جا سکتا ہے کہ تامل ناڈو کے محکمہٴ مال نے دس مئی کو ایک خاندان کو جبری مشقت سے نجات دلائی ہے اور اِس میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔ یہ خاندان بیس ہزار بھارتی روپے کا قرضہ ادا کرنے کے لیے جبری مشقت پر مجبور تھا۔

دوسری جانب بھارت عالمی سطح پر آم کے گودے کا ایک بڑا سپلائر ہے۔ سن 2014 اور 2015 میں بھارت سے تقریباً ایک لاکھ پچپن ہزار ٹن آم کا گُودا ایکسپورٹ کیا گیا تھا۔ اِس طرح آم کے گودے کی ایکسپورٹ کی صنعت 80 بلین بھارتی رویے یا 125 ملین ڈالر سے زائد کی ہے۔ اِس گودے کے خریداروں میں بڑی کمپنیاں جیسے پیپسی کولا، کوکا کولا اور یونی لیور کے علاوہ یمن، ہالینڈ، سعودی عرب اور کویت جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں