آسٹریلیا میں آگ کی تباہ کاریاں، مرنے والوں کی تعداد 180 سے زائد ہوگئی
10 فروری 2009شدید گرمی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے آسٹریلیا میں گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران جنگلوں کی لگی موجودہ آگ سب سے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ آسٹریلیا کی دو وفاقی ریاستوں وکٹوریہ اور نیو ساؤتھ ویلز میں اسی مختلف مقامات پر لگی آگ بے قابو دکھائی دیتی ہے۔ وسیع تر جنگلاتی رقبے کی تباہی کا باعث بننی والی اس آگ پر قابو پانے کے لئے فائر بریگیڈ کے 30 ہزار کے قریب کارکن مسلسل مصروف ہیں اور ان کی مدد کے لئے ہزاروں فوجی بھیج دیئے گئے ہیں۔ آگ لگنے کی انکوائری کے لئے ایک ٹاسک فورس بھی قائم کردی گئی ہے۔
آسٹریلیا کے جنگلات میں پھیلی سن 2009کی آگ اب آسٹریلوی تاریخ کی سب سے ہولناک آگ بن گئی ہے۔ اِس کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد سن 1939 اور سن1983 میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بڑھ گئی ہے۔ سن 1939 میں لگی آگ کے دوران آنے والے جمعہ کو سیاہ جمعہ کہا جاتا ہے۔ تب 71 افراد جل کر جاں بحق ہوئے تھے۔ اِسی طرح سن 1983 کی آگ کی لپیٹ میں آنے والے انسانوں کی تعداد 73 تھی۔
امسالہ جنوب مشرقی آسٹریلیا کے جنگلات کی جھاڑیوں میں لگنے والے آگ کی زد آ کر 750 سے زائد مکات خاکستر ہو گئے ہیں۔ آگ کی لپیٹ میں جنگلات کا علاقہ دو لاکھ ہیکٹر بیان کیا جا رہا ہے۔ جلنے والے سینکڑوں مکانوں کے علاوہ ہزار ہا مکانات بجلی کی سہولت سے محروم ہیں کیونکہ کئی مقام تک پہچنی والی بجلی کی ہائی وولٹیج والی تاریں اور کھمبے بھی آگ کے شعلوں کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق آگ کے شعلوں کی ایک بلند چلتی دیوار ہے جس کی لپیٹ میں مسلسل قصبے، مکانات، بلند و بالا درخت اور جھاڑیاں آ رہی ہیں۔
پہلے آگ پھیلنے کی وجہ تیز ہوائیں اور بڑھتا درجہ حرارت بتایا گیا تھا لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق درجہ حرارت میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن آگ بجھانے والے عملے کے مطابق درجہ حرارت میں کمی سے اب پھیلی آگ پر فوراً قابُو پانا ممکن نہیں کیونکہ اِس کا حجم بہت زیادہ ہے۔
اِس سال کی آگ کے دوران ایک قصبے کنگ لیک کے پچپن افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ویسے تو اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 131 ہو گئی ہے لیکن اِس میں اضافے کے قوی امکان کو بھی حکام رد نہیں کر رہے۔ اِس کے علاوہ ایسا احساس بھی ہے کہ جس انداز میں آگ پھیل رہی ہے کہیں اِس کی لپیٹ میں سڈنی اور میلبورن کےشہروں کے نواحی اضلاع نہ آ جائیں۔
جنگلات کے اندر سے گزرتی سڑکوں پر کھڑی بے شمار موٹر گاڑیاں بھی آگ کے شعلوں کی نذر ہو چکی ہیں۔ آگ کے علاقوں میں واقع قصبات میں بے شمار جلے مکانات کی ابھی گنتی باقی ہے۔ اِس خوفناک آگ کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والے مویشیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اِن کے علاوہ اِس بڑی آگ کی زد میں آ کر نایاب جنگلی جڑی بوٹیوں کے ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
آسٹریلیا کے سب سے بڑے صوبے وکٹوریہ کے شہر میلبورن میں واقع ایلفرڈ ہسپتال میں جھلسے ہوئے افراد کو بروقت مناسب اور بہترین علاج معالجے کی فراہمی کی کوششیں ہنگامی بنیادوں پر جاری ہیں۔ ایلفرڈ ہسپتال کے حادثاتی اور صدماتی علاج کے ماہر John Coleridge کا خیال ہے کہ کئی لوگوں نے جاں بحق افراد کو ریفریجیٹر میں رکھنے کی بھی اطلاع دی ہے اور اُن کی شنخت کا عمل ابھی باقی ہے جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم کیون رڈ نے آگ پر قابُو پانے کے لئے فوج کو طلب کر لیا ہے۔ ہزاروں آگ بجھانے والے عملے کو مدد کی اِس لئے بھی ضرورت ہے کہ کئی سڑکوں کو جلتے ہوئے بڑے بڑے درختوں نے بند کر رکھا ہے۔ اسی کے باعث ایمبیولینسوں کو اندرون جنگلات میں جلے افراد تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے صوبے وکٹوریا میں آگ سے پیدا شدہ المیے کو قومی المیہ قرار دیا ہے۔ صوبے وکٹوریہ کے وزیر اعلیٰ نے اِس صورت حال کو زمین پر واقع جہنم سے تعبیر کیا ہے۔
آ سٹریلوی تاریخ میں سن اُنیس سو انہتر، سڑسٹھ اور سن انیس سو بائیس کی لگنے والی جنگلات کی آگ بھی ہلاکتوں کے باعث یاد رکھی جاتی ہیں۔