1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جو نرس بننا چاہے، اسے جرمنی رہنے دیا جائے‘

28 اپریل 2018

جرمنی میں گرین پارٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ ایسے تارکین وطن کو، جو نرسنگ اور معمر افراد کی دیکھ بھال کے شعبوں میں کام کرنے کے خواہش مند ہوں، جرمنی میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دی جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2wq1e
Pflege
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene

جرمنی بھر کے ہسپتالوں میں تربیت یافتہ نرسوں اور عمر افراد کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے گرین پارٹی کے پارلیمانی لیڈر روبرٹ ہابیک کا کہنا تھا، ’’ہمیں جرمنی میں نرسوں اور صحت سے متعلق عملے کو مستقل رہائشی اجازت دینے کی ضرورت ہے اور اس معاملے کو پناہ کے ملکی قوانین میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔‘‘

غلطی سے ملک بدر کیے گئے افغان شہری کو پھر ملک بدری کا سامنا

دوسری جانب جرمنی میں ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہو رہا ہے جو نرسنگ کے  شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے زیر تربیت ہیں۔ اسی تناظر میں ہابیک نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان شعبوں میں کام کرنے والے تارکین وطن کو زیادہ عرصہ تک جرمنی میں رکھا جانا چاہیے اور اس ضمن میں پناہ کی قوانین میں تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے۔

رواں ہفتے ہی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک بھر میں بوڑھے جرمن شہریوں کے لیے نرسوں اور دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی قلت ہے۔ اس شعبے میں پینتیس ہزار سے زائد آسامیاں خالی ہیں۔ وفاقی جرمن حکومت نے بھی حال ہی میں معمر افراد کی دیکھ بھال کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مزید آٹھ ہزار خصوصی آسامیوں کا اعلان کیا ہے۔ برلن حکومت نے لوگوں کو اس شعبے میں کام کرنے کی ترغیب دینے کے لیے تنخواہوں میں اضافے، تربیت کی فراہم اور اضافی مراعات کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

جرمن گرین پارٹی نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ اس شعبے میں تربیت حاصل کرنے میں کافی وقت اور سرمایا صرف ہوتا ہے، اسی لیے حکومت کو یہ امر یقینی بنانا چاہیے کہ اس شعبے میں تربیت حاصل کرنے والے تارکین وطن کو جرمنی میں طویل قیام کی قانونی اجازت دی جائے۔

روبرٹ ہابیک کا کہنا تھا کہ یوں نہ صرف مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے روزگار کے بامعنی مواقع پیدا ہو پائیں گے بلکہ اس طرح اس اہم شعبے پر پایا جانے والا شدید دباؤ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

ش ح / ع ا (ڈی پی اے)

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟