1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟

شمشیر حیدر
19 جنوری 2018

جرمن حکام پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی زیادہ تر درخواستیں ابتدائی فیصلوں ہی میں مسترد کر دیتے ہیں۔ تاہم سن 2017 میں ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں میں بھی پاکستانی شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب انتہائی کم رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2rAbk
Bosnien und Herzegowina Sarajevo Migranten
تصویر: DW/Zdravko Ljubas

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) نے رواں ہفتے سن 2017 میں جرمنی میں تارکین وطن اور مہاجرین کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ سن 2017 کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی کم رہی۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

مہاجرین کی درخواستوں پر فیصلے، کس جرمن صوبے میں کب تک؟

اعداد و شمار کے مطابق اس پورے سال میں مجموعی طور پر ایک لاکھ چھیاسی ہزار مزید تارکین وطن جرمنی آئے۔ جب کہ مجموعی طور پر پناہ کے نئے درخواست گزاروں کی تعداد دو لاکھ بائیس ہزار رہی جن میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

ابتدائی فیصلوں میں پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد

گزشتہ برسوں کی طرح سن 2017 میں بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب نہایت کم رہا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بیس ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے جن میں سے محض چار فیصد کو پناہ دی گئی جب کہ انیس ہزار سے زائد (قریب چھیانوے فیصد) پاکستانیوں کو پناہ کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔

اس کے مقابلے میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب چوالیس فیصد رہا اور بانوے فیصد سے زائد شامی مہاجرین کو بھی جرمنی میں پناہ دے دی گئی۔

فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں

جرمنی میں ابتدائی فیصلے میں پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اس کے خلاف اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔

بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017 میں حکام نے 1422 پاکستانی شہریوں کی اپیل پر ان کی درخواستوں پر نظر ثانی کی۔

نظر ثانی کے بعد ان میں سے صرف ایک پاکستانی شہری کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ کا حقدار قرار دیا گیا جب کہ انتالیس پاکستانیوں کو دیگر درجوں میں عارضی طور پر جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں اپیلوں میں بھی پاکستانی تارکین وطن کی کامیاب درخواستوں کی شرح قریب ساڑھے پانچ فیصد رہی۔

گزشتہ برس کے مقابلے میں سن 2016 کے پورے سال کے دوران ایک ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر نظر ثانی کی گئی تھی۔

یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران، یعنی سن 2013 کے اوائل سے سن 2017 کے آخر تک، مجموعی طور پر قریب پینتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں دیں۔ ان برسوں کے دوران پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح بتدریج کم ہوئی ہے۔

جرمن حکام عام طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کو ’معاشی بنیادوں پر ترک وطن‘ کرنے والے افراد قرار دے کر ابتدائی فیصلوں میں ہی درخواستیں رد کر دیتے ہیں۔ جرمن قوانین کے مطابق ایسے فیصلوں کے خلاف انتظامی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس بھی ان ہزاروں پاکستانی شہریوں نے عدالتوں میں اپیلیں دائر کیں۔

عدالت اگر یہ سمجھے کہ حکام نے درست فیصلہ نہیں کیا اور نئے شواہد کی روشنی میں ان درخواستوں کو از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تو ہی بی اے ایم ایف کے حکام نظرثانی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی 1422 پاکستانیوں کی درخواستوں پر نظر ثانی عدالتی احکام کے بعد ہی کی گئی۔ لیکن شماریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟

یونان سے واپس جانے والے پاکستانی مہاجرین کی مالی مدد