1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: تَرک اسلام پر قتل، افغان مہاجر کے خلاف مقدمہ شروع

شمشیر حیدر اے ایف پی
23 جنوری 2018

جرمنی میں ایک افغان خاتون کو قتل کرنے والے ایک افغان تارک وطن کے خلاف مقدمے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس افغان شہری کو چار بچوں کی ماں کے مذہب تبدیل کر کے مسیحیت اختیار کرنے پر اعتراض تھا۔

https://p.dw.com/p/2rMqj
Mordprozess Traunstein Muslim ersticht konvertierte Frau
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جرمنی میں پناہ گزین اس تیس سالہ افغان تارک وطن نے افغانستان ہی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون تارک وطن کو اس کے دو بچوں کے سامنے خنجر کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ یہ افغان شہری اس بات پر نالاں تھا کہ اس خاتون نے اسلام ترک کر کے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا۔

مزید پڑھیے:  جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟

مزید پڑھیے: 2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟

جرمن حکام نے اس افغان مہاجر کی شناخت مخفی رکھی ہے۔ اسلام ترک کرنے والی اس افغان خاتون مہاجر کے قتل کا واقعہ گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں پیش آیا تھا۔ اس مسلمان مہاجر نے جرمن شہر پرین کی ایک سُپر مارکیٹ میں بیس سینٹی میٹر لمبے خنجر کے سولہ وار کر کے اس خاتون کو قتل کیا تھا۔

افغان خاتون کو مذہب تبدیل کرنے پر قتل کر دیے جانے کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا تھا جب جرمنی میں لاکھوں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے بعد عوام میں ’مہاجرین کو خوش آمدید‘ کہنے کا کلچر تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا اور اے ایف ڈی جیسی مہاجرین اور اسلام مخالف عوامیت پسند جماعتیں اور تحریکیں تیزی سے مقبول ہو رہی تھیں۔

جرمن شہر ٹراؤنسٹائن کے دفتر استغاثہ کے مطابق اڑتیس سالہ مقتولہ نے اسلام ترک کر کے مسیحیت اختیار کر لی تھی اور اس خاتون نے اس تیس سالہ افغان شہری کو بھی مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ پراسیکیوٹر کے مطابق ترک اسلام کی دعوت اس تارک وطن کے مسلم عقیدے کے خلاف تھی، جس کے باعث وہ مشتعل ہو گیا تھا۔ واقعے کے وقت سُپر مارکیٹ میں موجود افراد نے اس شخص پر مختلف اشیا پھینک کر اسے روکنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔

تیس سالہ افغان شہری قتل کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم بعد ازاں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد اس شخص کا کہنا تھا کہ اس کی جرمن حکام کو دی گئی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی جس کے بعد وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔

گرفتاری کے بعد ابتدائی طور پر اسے تین ماہ تک ذہنی مریضوں کے وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اسے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

عدالت نے ابتدائی طور پر اس مقدمے کی سماعت کے لیے چار روز مختص کیے ہیں۔ جرمنی میں قتل کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے تاہم زیادہ تر قیدیوں کو پندرہ برس بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: یونان سے واپس جانے والے پاکستانی مہاجرین کی مالی مدد

مزید پڑھیے: جرمنی: ہر چھٹا غیر ملکی سیاسی پناہ کا خواہش مند