تپ دق کے خلاف خوش ذائقہ ادویات کی جلد دستیابی
2 دسمبر 2015ماہرین کے مطابق ٹی بی کے خلاف اسٹرابیری اور رسبری کے ذائقے والی ادویات اس بیماری میں مبتلا بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے ضمن میں نہایت اہم کردار ادا کریں گی۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2014 ء میں ٹی بی کی موذی بیماری ایک لاکھ چالیس ہزار بچوں اور 1.37 ملین بالغ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن چُکی ہے۔ اس عالمی ادارے نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ سال ٹی بی کی متعدی بیماری نے مزید ایک ملین بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ٹی بی کے انسداد کے لیے سر گرم ایک الائنس کیمپین یا متحدہ مہم کے مطابق ٹی بی جیسی مہلک بیماری سے خاص طور سے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کے شکار افراد کے لیے نئی ادویات کی ایجاد کی طرف اب تک بہت غفلت کی جاتی رہی ہے اور یہ کہ مارکیٹ میں اس بارے میں بہت کم ترغیب دلائی گئی جس کے سبب تپ دق جیسی متعدی مہلک بیماری پر قابو پانا اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے بچے ٹی بی کے علاج کے لیے میسر ادویات کا استعمال پابندی سے اور مسلسل نہیں کر پاتے کیونکہ یہ بے حد کڑوی اور بد مزا ہوتی ہیں۔ ٹی بی کے مریض بچوں کو کم از کم چھ ماہ تک روزانہ یہ کڑوی دوائیں پابندی سے لینا پڑتی ہیں۔ اکثر بچے اس علاج کو جاری نہیں رکھتے اور یہ بد مزا دوائیں کھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
2016 ء کے اوائل سے بچوں کی عمروں کے مطابق ٹی بی کے خلاف تین اہم ترین ادویات کی خوراک مارکیٹ میں دستیاب ہو نگی جو کسی سیال میں گھول کر بچے کو پلائی جا سکتی ہیں۔ اس دوا کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے اس میں اسٹرابیریز اور رسبیریز کی خوشبو اور ذائقہ شامل کیا گیا ہے۔
تھومسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو ایک بیان دیتے ہوئے TB Alliance کے ایک آفیسرMel Spigelman نے ان نئی ادویات کے بارے میں کہا،’’ان کا استعمال ایسا ہے جیسے کہ ایک بچہ پھل کے ذائقے والا کوئی شربت پی رہا ہو‘‘۔
انہوں نے مزید کہا،’’ اس طرح والدین، بچوں کی نگہداشت کرنے والوں اور بچوں، سب کے لیے ہی یہ عمل نہایت آسان ہو جائے گا اور انہیں یقین ہو گا کہ بچے ٹی بی کے خلاف اپنی دوائیں پابندی اور تسلسل سے لے رہے ہیں اور ان کے علاج کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹی بی کے مریض اپنا علاج مکمل نہیں کرتے اور اسے منقطع کر دیتے ہیں تو ایسے مریضوں کا علاج دوبارہ سے کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ان مریضوں میں ادویات مزاحم ’’سُپر بگ‘‘ جنم لیتے ہیں جو دواؤں کو غیر موثر بنا دیتے ہیں۔ طبی ماہرین اور محققین کے مطابق ادویات کے خلاف مزاحمت کا مسئلہ عالمی سطح پر سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی ریسرچرز کا کہنا ہے ہ ہر سال قریب 32,000 بچے ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی یا ادویات مزاحم تپ دق کا شکار ہو تے ہیں جو کے زیادہ تر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
ٹی بی ایسے مریضوں سے پھیلتی ہے جو بغیرعلاج کے ٹی بی کے جراثیم کو اپنے اندر لیے ہوتے ہیں اور ان کے کھانسنے اور چھینکنے سے یہ جراثیم دیگر انسانوں میں منقل ہو جاتے ہیں۔ ایسا زیادہ تر خاندان میں ایک ٹی بی کے مریض کی موجودگی سے ہو جاتا ہے۔ ٹی بی میں مبتلا بچے جو بچ جاتے ہیں اُن میں بینائی اور قوت سماعت سے محروم ہونے کے علاوہ فالج اور ذہنی طور پر مفلوج ہوجانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔