پاکستان میں تپ دق کے باعث سالانہ ساٹھ ہزار ہلاکتیں
24 مارچ 2015سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تپ دق یا ٹی بی کے مرض کے حوالے سے دنیا کے 22 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، جہاں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 384 افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تپ دق کی مہلک قسم ایم ڈی آر ٹی بی سےمتاثرہ ممالک میں عالمی سطح پر پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 60 ہزار افراد اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
علامات اور علاج
پاکستان میں ٹی بی کنٹرول پروگرام سندھ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صاحب جان بدر کے مطابق تپ دق ایک مہلک مرض ہے جس کی علامات میں دو یا دو سے زائد ہفتوں تک کھانسی کا جاری رہنا، بلغم میں خون کا آنا، بخار رہنا، وزن کا کم ہو جانا اور بھوک کم لگنا شامل ہیں۔
تپ دق گرچہ ایک مہلک مرض ہے تاہم بروقت تشخیص اور علاج سے اس کا سو فیصد علاج ممکن ہے۔ ڈاکٹر صاحب جان کے مطابق اس بیماری کا ادھورا علاج مریض کو لاعلاج بھی بنا سکتا ہے جبکہ یہ مرض ایک متاثرہ انسان سے 10سے لے کر 15 دیگر افراد تک پھیل سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جان کے مطابق ملک بھر میں سالانہ پانچ لاکھ صحت مند شہری تپ دق کا شکار ہو جاتے ہیں تاہم طبی شعور کی کمی کے باعث صرف تین لاکھ تک متاثرہ افراد ہی تشخیص اور علاج معالجے کے لیے ٹی بی مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف صوبہ سندھ میں ہی گزشتہ سال 59 ہزار 520 افراد ٹی بی کا شکار ہوئے، جن میں سے سات ہزار 668 مریضوں کا تعلق کراچی سے تھا۔
ٹی بی کا علاج صرف چھ ماہ میں ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس علاج کو درمیان میں نامکمل ہی چھوڑ دیا جائے یا یہ علاج صحیح نہ کیا جائے تو یہ بیماری MDR-TB یا ملٹی ڈرگ ریزِسٹنٹ ٹیوبرکیولوسز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ملٹی ڈرگ ریزِسٹنٹ ٹی بی
پاکستان کے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام برائے ایم ڈی آر کے مشیر ڈاکٹر عبدالغفور کے مطابق، ’’ایم ڈی آر ٹی بی ایسی تپ دق ہے جس میں تپ دق کے خاتمے کے لیے دی جانے والی دو نہایت اہم ادویات اس بیماری کے جراثیم کے خلاف غیر مؤثر ہو جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالغفور نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کی جانب سے جو حالیہ سروے کیا گیا، اس کی تاحال غیر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ملک میں ایم ڈی آر ٹی بی کے سالانہ گیارہ ہزار نئے مریض سامنے آ رہے ہیں۔ ان مریضوں کے لیے علاج کی سہولت پورے ملک میں دستیاب ہے۔
ان کے بقول، ’’اس تپ دق کا علاج نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ کافی منہگا بھی۔ اس کا علاج عام طور پر دو سال کے عرصے پر محیط ہوتا ہے جبکہ ایک مریض پر کم از کم پانچ لاکھ روپے تک اخراجات آتے ہیں۔ صحت کے لیے مختص کیے گئے گلوبل ٹی بی فنڈز کی مدد سے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام نے اب تک پورے ملک میں 26 ہسپتال کھولے ہیں۔ وہاں تشخیص کے علاوہ علاج معالجے کی بھی بالکل مفت سہولت مہیا کی جاتی ہے اور مریضوں کو ادویات بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالغفور نے مزید کہا کہ گزشتہ برس ایم ڈی آر کے 2662 نئے مریضوں کی تشخیص کی گئی تھی، جن کا علاج بھی شروع کیا گیا۔ اب تک تقریباً چھ ہزار مریضوں کو رجسٹر کیا جا چکا ہے جن کا علاج جاری ہے۔ انہوں نے تاہم یہ بھی کہا کہ ایم آر ڈی کے پھیلاؤ کو قابو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تپ دق کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بالکل صحیح نسخہ لکھیں اور علاج کرانے والے مریض بھی اپنی بیماری کا مکمل علاج کرائیں، نہ کہ اس عمل کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا جائے یا ادویات کے استعمال کی مدت میں اپنے طور پر کوئی کمی بیشی کی جائے۔