1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سپر بَگ‘ کے بارے میں غلط فہمیاں

افسر اعوان16 نومبر 2015

دنیا بھر میں لوگ عوامی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ بننے والے ایسے انفیکشنز کے حوالے پریشان ہیں جن کے خلاف دوائیاں اثر نہیں کرتیں۔ ایسے انفیکشن کا باعث بننے والے بیکٹیریا کو سپر بَگ کا نام دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H6f6
تصویر: Imago/Science Photo Library

ماہرین پریشان ہیں کہ اس خطرے کیسے نمٹا جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس سلسلے میں عوامی آگاہی جاننے کے لیے ایک سروے کرایا۔ صحت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کے مطابق جن افراد سے یہ سروے کیا گیا ان کی 64 فیصد تعداد اس غلط خیال پر یقین رکھتی ہے کہ پینسلین پر مشتمل ادویات اور دیگر اینٹی بائیوٹک ادویات نزلہ زکام کا علاج کر سکتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی ادویات کسی بھی وائرس پر کوئی اثر نہیں کرتیں۔

سروے میں شامل افراد کی ایک تہائی تعداد یہ غلط تصور بھی رکھتی تھی کہ اینٹی بائیوٹکس لینے کی صورت میں طبیعت بہتر ہونے پر انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ حالانکہ یہ انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کردہ کورس مکمل کیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ’اینٹی مائیکروبیئل ریزسٹنس‘ کے خصوصی نمائندے کیجی فوکودا کے مطابق، ’’یہ نتائج ۔۔۔ اس انتہائی فوری ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ لوگوں میں اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے شعور پیدا کیا جائے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اکیسویں صدی میں صحت کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج عالمی سطح پر لوگوں اور معاشروں کے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گا۔‘‘

اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریا خود میں تبدیلی لاتے ہوئے ان اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف خود میں مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں جو ان بیکٹیریا کے باعث پیدا ہونے والے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال یا ان کے غلط استعمال سے ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا بننے کی وجہ بنتے ہیں جنہیں عام طور پر ’سپر بگز‘کا نام دیا جاتا ہے۔

سپر بگ انفیکشن، جن میں تپ دق، ٹائیفائیڈ اور سوزاک جیسی بیماریوں کی مختلف ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اقسام شامل ہیں، ہر سال لاکھوں افراد کی ہلاکت کی وجہ بنتی ہیں اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’اینٹی بائیوٹیک ریزسٹنس صحت کا ایک عالمی بحران ہے۔ یہ دنیا کے تمام حصوں میں خطرناک حد تک بلند سطح پر پہنچ رہا ہے۔‘‘

سپر بگ انفیکشن میں تپ دق، ٹائیفائیڈ اور سوزاک جیسی بیماریوں کی مختلف ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اقسام شامل ہیں
سپر بگ انفیکشن میں تپ دق، ٹائیفائیڈ اور سوزاک جیسی بیماریوں کی مختلف ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اقسام شامل ہیںتصویر: imago

ڈبلیو ایچ او نے 12 مختلف ممالک میں 10 ہزار لوگوں سے یہ سروے کیا۔ ان ممالک میں بارباڈوسا، چین، مصر، بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، نائجیریا، روس، سربیا، جنوبی افریقہ، سوڈان اور ویت نام شامل ہیں۔ اس سروے میں بہت سے پریشان کُن غلط فہمیاں سامنے آئیں۔

سروے میں شریک دو تہائی افراد کے خیال میں اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس کا مطلب ہے کہ ہمارے جسم میں ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو گئی ہے حالانکہ اصل میں یہ بیکٹیریا ہوتے ہیں جو اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف خود میں مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

66 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص ڈاکٹر کی تشخیص کردہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا کورس مکمل کرتا ہے تو اسے ڈرگ ریزسٹنس انفیکشن کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جبکہ نصف کے قریب لوگوں کے خیال میں ڈرگ ریزسٹنس کا مسئلہ صرف انہی لوگوں کو درپیش ہو سکتا ہے جو اینٹی بائیوٹیکس کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص، کسی بھی عمر میں اور کسی بھی جگہ ’سپر بگ‘ سے پیدا شدہ انفیکشن کا شکار ہو سکتا ہے۔