1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ3 اکتوبر 2014

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز نے بد امنی میں ملوث کالعدم عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے مخلتف علاقوں میں اب تک 100 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DPUj
تصویر: DW/A.G.Kakar

صوبائی محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن میں پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے سینکڑوں اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔

بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر پر تشدد واقعات میں ملوث کالعدم مسلح گروپوں کے خلاف اس کارروائی کا آغاز جمعہ تین اکتوبر کو علی الصبح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرقی علاقوں سے کیا گیا۔ حکام کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی، کرانی روڈ، ہزار گنجی، سریاب روڈ، تربت کے علاقے دشت، مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ، بولان، مچھ،کرمو وڈھ، اواران، خضدار اور پنجگور میں کی جانے والی اس کارروائی کے دوران بڑے پیمانے پراسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا گیا۔

گرفتار شدگان میں سنگین جرائم میں ملوث کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کے ایسے درجنوں ارکان بھی شامل ہیں جو سکیورٹی فورسز کو مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔ معروف دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول بلوچستان میں بد امنی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کو شدت پسندوں کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر کارروائی کرنا ہو گی۔

Sicherheitskontrolle in Quetta
تصویر: DW/A. G. Kakar

ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حسن عسکری رضوی نے کہا، ’’جب تک ریاستی ادارے تشدد کنٹرول میں نہیں لاتے، ریاست کی رِٹ قائم نہیں ہو گی۔ قیام امن کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور کارروائی مؤثر ثابت نہیں ہو گی۔ جو تنظیمیں پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں، ان کی قوت اسی لیے بڑھتی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں ہو تی۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ تشدد جو کوئی بھی کرے، وہ قابل قبول نہیں ہے۔‘‘

بد امنی میں ملوث کالعدم گروپوں کے خلاف جہاں ایک طرف بڑے پیمانے پر یہ کارروائی شروع کی گئی ہے، وہیں پس منظر ذرائع سے بعض گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔

اس امر کا احاطہ کرتے ہوئے کوئٹہ میں صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’مذاکرات کی میز پر جس طرح طالبان کو لایا گیا، اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم مذاکرات کے معاملے کو کھولنا نہیں چاہتے۔ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ میڈیا جب اسے بات کو اچھالے گا اور لوگ اس پر بیان بازی کریں گے، تو اچھے خاصے مذاکرات بھی، جو چاہے کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہوں، سبوتاژ ہو سکتے ہیں۔‘‘

اس کارروائی اور سرچ آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد کو کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں قائم مختلف تحقیقاتی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کی نشاندہی پر ان کالعدم گروپوں کے دیگر روپوش ارکان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید