مسلسل حادثات کے بعد MI17 ہیلی کاپٹروں پر سوالیہ نشان
8 اگست 2015ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے تازہ حادثے میں تین روز قبل بری فوج کے پانچ میجر رینک کے افسران سمیت بارہ فوجی جوان ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ فضائی حادثہ اس وقت پیش آیا تھا، جب پاکستانی فوج کے افسران اور جوان ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر سیلاب سے متاثرہ شمالی علاقوں میں امدادی کاموں میں شرکت کے لیے چترال جا رہے تھے کہ مانسہرہ کے مقام پر ان کا ہیلی کاپٹر کریش کر گیا۔
یہ حادثہ اس وقت رونما ہوا، جب اسی دن چترال میں دوران پرواز ایک اور ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر کو فنی خرابی کی وجہ سے کریش لینڈنگ کرنا پڑی تاہم خوش قسمتی سے اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ سن نوّے کی دہائی سے پاکستانی بری فوج کے شعبہٴ ہوا بازی کے زیر استعمال ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر حاد ثات کا شکار ہوئے ہیں۔
اسی سال مئی کے مہینے میں پاکستان کے شمال میں واقع گلگت کے قریب سیاحتی مقام نلتر میں ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر کے ایک ہولناک حادثے میں تین غیرملکی سفیروں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔ اس سے قبل قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں دوہزارنو میں ایک ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا جس پر سوار سترہ فوجی افسران اور اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
فوج کی جانب سے ان حادثات کی وجہ فنی خرابی اور خراب موسمی حالات کو قرار دیا جاتا رہا ہے تاہم دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل کے مطابق وقت آگیا ہے کہ ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر کو اُس کے اپ گریڈ ماڈل کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’جیسے پہلے ہم ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹر اڑاتے تھے پھر ایک وقت آیا کہ ہم نے انہیں ایم آئی سترہ کے ساتھ تبدیل کر دیا۔ ایم آئی سترہ اپنے وقت کا ایک زبردست کارگو ہیلی کاپٹر تھا لیکن ہمارے ہاں اس کا بہت زیادہ استعمال ہوا۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سامان لے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے بھی ان کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کا ہیلی کاپٹروں کی دیکھ بحال اور مرمت کا شعبہ بہت عمدہ ہے لیکن اصل معاملہ فنی پرزوں کی مرمت کا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹر کی باڈی پر پڑنے والے اثرات بھی اس کی لائف کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے زیر استعمال ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹروں کی درست تعداد کا علم تو نہیں البتہ عسکری ذرائع کے مطابق ان کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔
پاکستانی فوج کا شعبہٴ تعلقات عامہ مختلف تقریبات اور واقعات کی کوریج کے سلسلے میں میڈیا کے نمائندوں کو لانے اور لے جانے کے لیے بھی ایم آئی سترہ کا استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کے معروف میڈیا گرو اور روزنامہ ’ڈان‘ سے وابستہ سینیئر دفاعی نامہ نگار متین حیدر نے بھی ہیلی کاپٹر کے تواتر کے ساتھ فضائی حادثات کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’اب اگر ہمیں کوریج کے لیے ایم آئی سترہ پر جانا پڑتا ہے تو یقیناً یہ پہلے جتنا آسان نہیں ہو گا لیکن ہمیں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے بعض دفعہ بہت سے خطرات مول لینے پڑ تے ہیں مگر اب ہم اس ہیلی کاپٹر ایم آئی سترہ پر سوار ہونے سے قبل اس کے فنی طور پر مکمل درست ہونے کی یقین دہانی تو مانگیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے پرانے فوجی ساز و سامان پر بھی انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن ان کے خیال میں فوجی قیادت موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے اہلکاروں کی فضائی سفر کے دوران حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مطلوبہ اقدامات پر ضرور غور کر رہی ہو گی۔