1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیلی کاپٹر کیسے تباہ ہوا ؟ عینی شاہدین کی زبانی

شکور رحیم، اسلام آباد9 مئی 2015

گزشتہ روز پاکستانی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کی تباہی کے بعد حکومتی اور فوجی موقف کے برعکس پاکستانی طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ان کی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے عینی شاہدین سے گفتگو کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FNNU
Pakistan Helikopter Absturz
تصویر: picture-alliance/dpa

’’دو ہیلی کاپٹر مہمانوں کو لےکر نلتر ہیلی پیڈ پر اُتر چکے تھے ۔اب تیسرا ہیلی کاپٹر بھی آہستہ آہستہ ہیلی پیڈ کی جانب بڑھ رہا تھا، جب ہم نے دیکھا کہ اچانک اس کی دُم پر لگا پنکھا الگ ہو کر نیچے گر گیا اور ہیلی کاپٹر نے دو غوطے کھائے اور ہیلی پیڈ کے نزدیک آرمی پبلک اسکول کی عین چھت کے اوپر گرگیا اور چند ہی لمحوں بعد آگ اور دھویں کے بادلوں اٹھنے لگے۔‘‘ یہ کہنا تھا یونین کونسل نلتر کے رکن چوہدری سردار وزیر کا۔ ان کے بعقول جمعے کے روز وہ شمالی علاقے نلتر میں حادثے کے شکار ہونے والے پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر سے صرف تین سو میٹر کے فاصلے پر اپنے دوستوں کے ساتھ موجود تھے۔

نلتر سے ٹیلی فون پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سردار وزیر نے کہا کہ وہ آٹھ مئی کے بدقسمت دن کو کبھی نہیں بھلا پائیں گے جب نہ صرف سات قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ نلتر کے عوام علاقے کی ترقی کے حوالے سے ایک تاریخی موقع سے بھی محروم ہو گئے۔

انہوں نے کہا وہ علاقے کے چند معززین کے ہمراہ نلتر میں چئیر لفٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ اس موقع پر فوج اور پولیس کے جوانوں کی بڑی تعداد سکیورٹی کی ڈیوٹی پر معمور تھی۔ تقریب میں صرف دعوت نامے کے ذریعے ہی شرکت ممکن تھی۔ سردار وزیر کے مطابق، ’’حادثے کے شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر نے جب فضاء میں غوطے کھانے شروع کیے تو ہم دوستوں نے ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پائلٹ صاحب کیا کر رہے ہیں، پھر جب اچانک ہیلی کاپٹر نیچے آرمی پبلک سکول کی چھت پر گرا اور جب آگ اور دھواں نکلنا شروع ہوا تو ہم نے حادثے کی جگہ کی جانب دوڑنا شروع کیا تاکہ امدادی کام میں حصہ لیں لیکن فوج اور پولیس کے جوانوں نے ہمیں وہاں نہیں جانے دیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حادثے کی جگہ سویلین میں سے صرف نلتر ریسٹ ہاؤس کے تین ملازمین ہی پہنچ سکے انہوں نے ہمیں بتایا کہ فوجی جوان امدادی کام کر رہے تھے اور لاشوں کو ملبے سے نکالنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کو بھی اُٹھا رہے تھے۔

سردار وزیر نے مزید بتایا، ’’جو کچھ ہم نے دیکھا اس میں کہیں بھی دہشت گردی کا شبہ نہیں کیونکہ نلتر کے علاقے میں کافی عرصےسے فوج کی موجودگی کی وجہ سے کبھی بھی طالبان یا اس طرح کے لوگ وہاں نہیں دیکھے گئے اور یہاں کے لوگ بھی شدت پسندی سے بہت دور ہیں اور اپنی فوج کی بہت عزت کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ نلتر کے عوام ہیلی کاپٹر کے حادثے پر بہت دکھی ہیں لیکن انہیں یہ امید بھی ہے کہ علاقے کی ترقی کو بھلایا نہیں جائے گا اور وزیر اعظم جلد ہی دوبارہ علاقے کا دورہ کر کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔

Maha Mussadiq
’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں سفارتی امور کی رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی ماہا مصدق بھی اس سفر کا حصہ تھیں۔تصویر: Privat

پاکستان کے انگریزی روزنامے ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں سفارتی امور کی رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی ماہا مصدق بھی اس سفر کا حصہ تھیں۔ اس سفر کے شرکاء اسلام آباد سے گلگت تک اکٹھے سفر کرنے کے بعد ٹولیوں کی شکل میں تین یا چار ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نلتر جا رہے تھے جب ان میں سے ایک ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہو گیا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ماہا نے بتایا کہ انہیں وزارت خارجہ کی جانب سے اس ٹرپ کی رپورٹنگ کا دعوت نامہ ملا تھا اور اس کا مقصد پاکستان میں سیاحت کا فروغ بتایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ مئی کی صبح راولپنڈی کے نور خان ائیر بیس سے انہیں ایک سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے پہلے گلگت پہنچایا گیا، جہاں سے پلان کے مطابق مسافروں کو چار ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نلتر پہنچایا جانا تھا۔ ماہا نے بتایا، ’’مجھے یہ معلوم نہیں کہ ہیلی کاپٹر تین تھے یا چار کیونکہ ہم جس ہیلی کاپٹر میں تھے اس سے پہلے دو ہیلی کاپٹر نلتر پہنچ چکے تھے جبکہ تیسرا کریش کر گیا اور اسی کے پیچھے ہمارا نمبر تھا تو اب یہ معلوم نہیں کہ پہلے پہنچنے والے دو میں سے ایک ہیلی ہمیں لینے واپس آیا تھا یا ہمارے والا چوتھا ہیلی کاپٹر تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ جس ہیلی کاپٹر میں سوار تھیں اس میں سوئس اور تھائی لینڈ کے سفیر، ان کے اہل خانہ، تین صحافیوں اور ایک فوٹو گرافر سمیت کل تیرہ افراد سوار تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ نلتر ہیلی پیڈ کے قریب پہنچے اور ابھی فضا میں ہی تھے کہ ان سے اگلی نشست پر بیٹھے سوئس ایمبیسڈر نے ہیلی پیڈ کے نزدیک لگی خوفناک آگ کی طرف توجہ دلائی۔ ماہا کے مطابق، ’’جب میں نے نیچے دیکھا تو ایسے لگا جیسے جنگل میں آگ لگی ہے، پھر غور سے دیکھا تو ایک بڑی عمارت کے احاطے میں آگ لگی ہوئی تھی، جہاں قریب میدان میں گھاس پر سفید چونے کے ساتھ بڑے حروف میں ’’آرمی پبلک سکول‘‘ لکھا تھا تو میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک غیر ملکی سفارتکار سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر دیا ہو۔‘‘

ماہا کے مطابق اس دوران انہیں بتایا گیا کہ ہیلی پیڈ پر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں واپس جانا ہوگا۔ تاہم ماہا کے مطابق بطور ایک صحافی ان کے کان کھڑے ہو چکے تھے کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسی دوران ہمارے ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ میں بھی بے چینی اور اضطراب نظر آیا لیکن ہم اسے بھانپ نہ پائے کہ وجہ کیا ہے۔ پھر ہمارا ہیلی کاپٹر نلتر اترے بغیر گلگت واپس پہنچ گیا، جہاں ہمیں معلوم ہوا کہ عمارت میں لگی وہ آگ اصل میں ہیلی کاپٹر کریش ہونے سے لگی تھی۔

گزشتہ روز ہیلی کاپٹر کی تباہی کے فوراﹰ بعد پاکستانی طالبان نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ ہیلی کاپٹر انہوں نے تباہ کیا ہے اور وہ ملکی وزیراعظم نواز شریف کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ اس بارے میں نہ تو کوئی ویڈیو اور نہ ہی کوئی دوسرا ثبوت فراہم کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود طالبان کی طاقت سے متعلق سوالات اٹھنے شروع ہو گئے تھے۔ دوسری جانب پاکستانی فوج، وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے مطابق طالبان کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے جبکہ ہیلی کاپٹر کی تباہی سراسر فنی خرابی کی وجہ سے ہوئی۔