محاصرے کی صدیوں پرانی جنگی تکنیک شام میں آج بھی حقیقت
17 فروری 2016اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام کے کم از کم سات محصور شہروں میں نصف ملین سے زائد انسان امداد کے منتظر ہیں۔ ان شہروں میں ایک مضایا بھی ہے، جہاں درجنوں انسان بھوک اور پیاس کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مضایا کے محاصرے پر شامی حکومت کو عالمی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح حلب کے گرد و نواح کے علاقے کا بھی شامی فوج نے سخت محاصرہ کر رکھا ہے۔ اِس محاصرے میں تین لاکھ افراد محصور ہیں اور بے پناہ مصائب و مسائل کا شکار ہو کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے شامی صدر بشار الاسد کے جارحانہ رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اور وہ اِس پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ شہروں کا محاصرہ اُس وقت تک جاری رکھا جائے تاوقتیکہ کہ اُس پر قبضہ ہو جائے بصورت دیگر محصورین بھوک پیاس سے بلکنے لگیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹیفان دے مِستورا سے شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے گزشتہ روز ملاقات کے بعد کہا تھا کہ دمشق حکومت کی خواہش ہے کہ ہر شامی تک امدادی سامان پہنچے اور کوئی بھی اِس سے محروم نہ رہے۔
اقوام متحدہ نے شام میں کُل اٹھارہ مختلف کمیونیٹیز اور علاقوں کے محاصروں کا بتایا ہے اور ان میں پینتالیس لاکھ افراد کسمپرسی کے حالات کا شکار ہیں کیونکہ اُن تک امداد کی فراہمی ایک انتہائی مشکل عمل ہے۔ دس لاکھ افراد براہ راست محاصرے کی شدید صعوبتوں کا عملاً سامنا کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں باغیوں پر روسی حملوں کے بعد ہزارہا افراد گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ عمل کئی مقامات پر مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ شامی باغیوں نے دو حکومتی قصبوں کا محاصرہ کر رکھا ہے اور انتہائی سرگرم اور خطرناک عسکریت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے مشرقی شہر دیرالزور کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اِس شہر میں دو لاکھ محصورین مصائب سے درچار ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ شہروں کے محاصروں کی پالیسی صدیوں پرانی ہے اور اسے جنگ حکمتِ عملی کا ایک اہم گُر خیال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں یروشلم سے لے کر لینن گراڈ اور سراژیوو سمیت کئی شہروں کے محاصرے کیے جا چکے ہیں۔
پرانے زمانے میں دشمن افواج جا کر کسی شہر کو گھیرے میں لے لیتی تھیں اور عام شہری آبادی تک سامانِ خورد و نوش کی فراہمی روک دیتی تھیں۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ اپنے فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم رکھا جا سکے اور شہر کے اندر موجود فوجی بھوک سے تنگ آ کر خود ہی ہتھیار پھینکنے پر تیار ہو جائیں۔