’بھوک بطور ہتھیار‘، جنگی جرم ہے، بان کی مون
15 جنوری 2016اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس سلسلے میں شامی تنازعے کے فریقین کو انتہائی سخت انداز میں خبردار کیا ہے: ’’میں یہ واضح کر دوں کہ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ایک جنگی جرم ہے۔‘‘ ان کے بقول تمام فریق بشمول دمشق حکومت اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں: ’’شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور اشیاء خورد نوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری شامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
بان کی مون نے مزید کہا کہ جنگ میں کامیابی یا علاقوں سے قبضہ ختم کرنے کے لیے تمام فریق اس طرح کے اور بھی جرائم میں ملوث ہیں۔ ’’ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘‘
اس عالمی ادارے کے سربراہ نے مزید کہا کہ محصور علاقوں میں موجود شامی شہریوں کو یرغمال بنایا جا رہا ہے اور ان کی حالت زار انتہائی مخدوش ہے: ’’یرغمالیوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے لیکن شامی علاقوں میں بچے، خواتین اور مردوں کو ضروری اشیاء اور طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں زندگی گزارنا پڑ رہی ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین کے مطابق، ’’بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘‘
آج سلامتی کونسل میں اسی موضوع پر ایک اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اس اجلاس سے قبل اس عالمی ادارے کے لیے فرانسیسی سفیر فرانسوا دیلاتر نے کہا، ’’اس اجلاس کے دوران کوشش کی جائے گی کہ عالمی برداری کی توجہ شام میں انسانی بحران کے شکار علاقوں کی جانب مبذول کرائی جائے۔‘‘ فرانس کے علاوہ برطانیہ اور امریکا نے بھی ایک ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے زور ڈالا تھا، تاکہ بھوک کے شکار تقربیاً چار لاکھ شامی شہریوں کو امداد پہنچانے کے سلسلے کو فوری طور پر بحال کیا جا سکے۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دمشق حکومت نے مضایا نامی علاقے میں امدادی قافلے کو داخل ہونے کی اجازت دی۔ وہاں صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ علاقے کے رہائشیوں کو پانی میں درختوں کے پتے پکا کر اور حرام جانوروں کا گوشت کھا کر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ سلامتی کونسل اپنے اجلاس میں جنگی جرائم کی عالمی عدالت سے ان واقعات کی چھان بین کرانے کی درخواست بھی کر سکتی ہے۔ اس سے قبل 2014ء میں بھی اس سلسلے میں دی ہیگ کی عالمی عدالت سے رابطہ کیا گیا تھا اور یہ کوشش روس اور چین کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہو گئی تھی۔