سنگاپور کی پچاسویں سالگرہ پر شاندار جشن
9 اگست 2015یہ شہری ریاست اپنی گولڈن جوبلی کا جشن بھی شاندار طریقے سے منا رہی ہے۔ اس موقع پر ہونے والی تقریبات میں مسلح افواج کی پریڈ اور آتش بازی کے مظاہرے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے لیکن ساتھ ساتھ سنگاپورکے بانی آنجہانی لی کوآن یوکی زندگی پر مبنی دستا ویزی فلم دکھا کر انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ ان تقریبات میں شرکت کے لیے تقریباً ڈھائی لاکھ افراد سڑکوں پر نکلے ہیں۔
سنگاپور ایک ایسے خطے میں بے پناہ اقتصادی ترقی، خوش حالی اور امن و امان کی علامت بنا ہے، جو غربت اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ یہ شہری ریاست 9 اگست 1965ء کو معرض وجود میں آئی، جب ملائیشیا نے اس کو وفاق سے نکال باہر کیا۔
سنگاپور نے، جو کبھی نو آبادیاتی دور کی ایک پسماندہ بندرگاہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا، چند عشروں کے اندر اندر اتنے بڑے پیمانے پر اقتصادی ترقی اور خوش حالی حاصل کی ہے کہ اپنے ہمسایہ ممالک ملائیشیا اور انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
آج کل سنگاپور میں نوّے فیصد سے زیادہ شہری اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں اور یہ ملک فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے چوٹی کے ملکوں میں شامل ہے۔ 2014ء میں سنگاپور میں فی کس مجموعی آمدنی چھپن ہزار دو سو چوراسی ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سنگاپور کے شہریوں کو اس ترقی کی قیمت کچھ شہری آزادیوں پر قدغنوں کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہے۔ مثلاً ابھی حال ہی میں ایک ٹین ایجر لڑکے اموس ژی کومسیحیت کا مذاق اڑانے اور ایک تجزیہ نگار کو بھی موجودہ وزیراعظم پر الزام لگانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ یہ دو ایسی مثالیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت سے اختلاف رائے کا انجام کیا ہوتا ہے۔
سنگاپور کی اس بے مثال ترقی کا سہرا لی کوآن یُو کے سر ہے، جن کے تریسٹھ سالہ فرزند لی سیان لونگ آج کل اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ملک کے پچاس سالہ جشن کے موقع پر عوامی جذبات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں وہ بارہ ستمبر کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں تاکہ اُن کی عشروں سے برسرِاقتدار چلی آرہی جماعت پی اے پی بدستور اس ملک پر حکمرانی کر سکے۔
2011ء کے انتخابات میں اس جماعت کو کافی تعداد میں ووٹوں سے محروم ہونا پڑا تھا کیونکہ لوگ مہنگائی، حکومت کی امیگریشن پالیسیوں اور صحت کے شعبے میں بھاری اخراجات کے باعث حکومت سے نالاں بھی ہیں۔
سنگاپور میں کم شرح پیدائش کی وجہ سے حکومت کوسن دو ہزارمیں اپنی امیگریشن پالیسی میں نرمی کرنی پڑی تھی، جس کی وجہ سے سنگاپور کی آبادی 4.17 ملین سے بڑھ کر 5.47 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ اب ملکی آبادی کا چالیس فیصد غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔ سنگاپور کے رہنے والے مڈل کلاس لوگ اس وجہ سے ٹینشن میں ہیں کہ باہر سے آنے والے تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگ ہی گھر اور نوکریاں حاصل کر پا رہے ہیں۔
حکومت نے کئی بلین ڈالر خرچ کر کے عوام کے لیے نئے رہائشی منصوبوں اور میٹرو لائنز پر کام شروع کیا ہے، جس کے لیے دوسرے ممالک سے کاریگر بلوائے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی میں بین الااقوامی تعلقات عامہ کےپروفیسر مائیکل بار کا کہنا ہے کہ گولڈن جوبلی کی تقریبات پر عوام میں پائے جانے والے جوش و خروش اور عظیم بانی رہنما آنجہانی لی کوآن یو کے اس سال مارچ میں اکیانوے برس کی عمر میں انتقال پر پائے جانے وال گہرے دکھ کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں حکومت کے ساتھ ہوں گی اور اس کا فائدہ حکمران جماعت پی اے پی کو ہی پہنچے گا۔