1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سنگاپور سٹوری‘ کے خالق لی کوآن یُو کا انتقال

Thomas Kohlmann / امجد علی23 مارچ 2015

وہ 1959ء سے ہی سنگاپور کے سیاسی منظر نامے پر چھا گئے تھے اور انہوں نے ہی اس شہری ریاست کو آزادی کی منزل سے روشناس کروایا۔ پھر وہ عشروں تک سنگاپور پر حکومت کرتے رہے۔ اب اکیانوے برس کی عمر میں اُن کا انتقال ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EvXe
لی کوآن یُو
لی کوآن یُوتصویر: Matt Rourke/AFP/Getty Images

یہ لی کوآن یُو ہی تھے، جنہوں نے ’سنگاپور سٹوری‘ یا سنگاپور کے کرشمے کو عملی شکل دی اور ملائیشیا کے ساحلوں کے قریب واقع اس چھوٹے سے بندرگاہی شہر سنگاپور کو دنیا کی خوشحال ترین ریاستوں میں سے ایک بنا ڈالا۔

وہ 1959ء میں سنگاپور کے وزیر اعظم بنے، جب اس شہری ریاست کی اپنی ایک الگ انتظامیہ تو تھی لیکن بنیادی طور پر یہ ایک برطانوی نوآبادی تھا۔ لی نے دیکھتے ہی دیکھتے سنگاپور کی اقتصادی کارکردگی کو کئی گنا بڑھا دیا اور یوں اس شہری ریاست کی خوشحالی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 1965ء میں سنگاپور کی فی کس آمدنی تقریباً چار سو ڈالر تھی، جو 1990ء میں بڑھ کر بارہ ہزار ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ یہ وہ سال تھا، جب لی کوآن یُو نے وزارتِ عظمیٰ کو خیر باد کہہ دیا۔ اس عہدے سے استعفے کے دو عشرے بعد تک بھی وہ ’سینیئر وزیر‘ اور ’سرپرست وزیر‘ کے طور پر اپنے بعد آنے والی حکومتوں کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ لی کے سیاسی منظر سے ہَٹ جانے کے بعد بھی سنگاپور کی اقتصادی ترقی کا سفر رُکا نہیں بلکہ اور بھی تیز رفتاری سے جاری رہا۔ یہاں تک کہ 2013ء میں عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سنگاپور کی فی کس آمدنی پچپن ہزار ڈالر سے کہیں اوپر جا چکی تھی، یعنی جرمنی کی فی کس آمدنی سے بھی تقریباً پچیس فیصد زیادہ۔

’تیسری دنیا سے پہلی دنیا میں‘

پانچ جون 1959ء کو لی اپنی ہی قائم کردہ جماعت PAP یعنی ’پیپلز ایکشن پارٹی‘ کے ایک پینتیس سالہ سیاستدان کے طور پر سنگاپور کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اس حیثیت میں اُنہوں نے 1962ء میں ملائیشیا کے ساتھ اتحاد اور 1963ء میں برطانیہ سے آزادی کی کوششوں کو آگے بڑھایا۔ دو سال بعد چینی اور ملائی شہریوں کے درمیان نسلی ہنگامے پھوٹ پڑے اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ ہنگامے جلد ہی پورے ملائیشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ تب اگست 1965ء میں لی کی خواہش کے برعکس سنگاپور کو ملائیشیا کے ساتھ قائم مشترکہ وفاق سے الگ کر دیا گیا۔

سنگاپور کی فی کس آمدنی، جو 1965ء میں تقریباً چار سو ڈالر تھی، اب پچپن ہزار ڈالر سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے
سنگاپور کی فی کس آمدنی، جو 1965ء میں تقریباً چار سو ڈالر تھی، اب پچپن ہزار ڈالر سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہےتصویر: Fotolia/asab974

اپنی 2000ء میں ’فرام تھرڈ ورلڈ ٹو فرسٹ: دی سنگاپور سٹوری‘ کے نام سے شائع ہونے والی آپ بیتی میں لی نے بتایا کہ تب اُنہیں اس مشکل صورتِ حال کا سامنا تھا کہ کیسے ایک ایسی ریاست کا انتظام چلائیں، جس کے پاس کوئی خام مال بھی نہیں تھا اور جس کی آبادی زیادہ تر اَن پڑھ شہریوں پر مشتمل تھی۔

خود لی کا تعلق ایک ایسے خوشحال چینی خاندان سے تھا، جو اُنیسویں صدی سے سنگاپور میں رہ رہا تھا۔ لی نے شروع ہی سے تعلیمی شعبے کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے صحتِ عامہ کے شعبے کو مستحکم بنایا، شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا اور ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے خلاف اپنی کوششیں تیز تر کر دیں۔ ساتھ ساتھ اُنہوں نے نہ صرف بنی بنائی مصنوعات برآمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ ملک کے اندر ایسے بہتر حالات پیدا کیے، جن کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سنگاپور میں اپنا پیسہ لگانے کی ترغیب دینا تھا۔ لی کی حکومت نے ایسے رہائشی مکانات بھی بنانا شروع کیے، جنہیں مزدور گھرانے بھی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔

مطلق العنان حکومت، اقتصادی آزادی

جرمن صحافی گیورگ بلُومے نے 2011ء کے موسمِ خزاں میں جرمن ہفت روزہ جریدے ’دی سائٹ‘ کے لیے لی کا انٹرویو کیا تھا۔ بلُومے دنیا میں سب سے زیادہ مدت کے لیے برسرِاقتدار رہنے والے لی کوآن یُو کو ایک ایسا ’آمر‘ قرار دیتے ہیں، جس نے 1965ء کے بعد سے اقتدار میں رہتے ہوئے یا اقتدار سے باہر بھی، سنگاپور پر اس انداز سے حکومت کی کہ جس میں اپوزیشن کے لیے جگہ نہ ہونے کے برابر تھی۔

سنگاپور میں چیونگم پر سختی سے پابندی ہے، چہ جائیکہ یہ طبی مقاصد کے لیے ہو۔ دیواروں پر لکھنے اور نقش و نگار بنانے والے کے لیے قید اور کوڑوں کی سزائیں ہیں۔ ہمسایہ ریاستوں انڈونیشیا اور ملائیشیا کی طرح سنگاپور میں بھی منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے لیے موت کی سزا ہے۔ مغربی دنیا کی طرح کے آزاد پریس کے تصور سے بھی سنگاپور ابھی کوسوں دور ہے۔ پانچ ملین کی آبادی والی اس گنجان آباد ریاست میں چینی، ملائی، ہندوستانی اور دیگر اقلیتوں کے مابین نسلی اور مذہبی تنازعات ایسے موضوعات ہیں، جن پر رپورٹ کرنا صحافیوں کے لیے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

لی کوآن یُو کی نظر میں آزادیٴ صحافت وہاں ختم ہوجاتی تھی، جہاں سے اُنہیں یہ لگنے لگتا تھا کہ ریاست کے استحکام کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔

چین کے ساتھ موازنہ

1978ء میں لی نے چینی سیاستدان اور بعد میں چین میں اقتصادی اصلاحات متعارف کروانے والے قائد دَینگ سیاؤ پِنگ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے یہ پیشین گوئی کی کہ چین بھی سنگاپور ہی کی طرح اقتصادی کامیابی کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔

آج کل چین اقتصادی شعبے میں ہوش رُبا رفتار سے ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی وہاں کی کمیونسٹ قیادت نے بدستور ملک پر اپنی آہنی گرفت بھی برقرار رکھی ہوئی ہے اور لوگوں کو اُن کے بنیادی جمہوری حقوق دینے سے بھی ہچکچا رہی ہے۔ چین کے ساتھ موازنے میں دیکھا جائے تو سنگاپور میں آزادی کا دور دورہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سنگاپور میں رائج نظام میں آمرانہ خصوصیات کی جھلک بھی موجود ہے اور اس نظام کو مغربی طرز کی جمہوریت ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔