جرمن وزیر خارجہ کا جنرل اسمبلی سے پہلا خطاب
26 ستمبر 2010وفاقی جمہوریہ جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل چھوٹی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان اور وزیر خارجہ ویسٹر ویلے نے اپنے خطاب میں کہا کہ جرمنی عالمگیر ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار ہے اور یہ کہ عالمی برادری کے تانے بانے میں جرمنی کی خارجہ سیاست کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
اِس موسمِ خزاں میں عالمی سلامتی کونسل کی دو غیر مستقل نشستوں پر نئے ممالک کا انتخاب عمل میں آنے والا ہے اور اِن میں سے ایک نشست کے لئے جرمنی بھی اُمیدوار ہے۔ اپنے خطاب میں وزیر خارجہ نے، جو جرمنی کے نائب چانسلر بھی ہیں، کہا کہ جرمنی اِس نشست کے ذریعے مخصوص انداز میں مشترکہ طور پر امن اور ترقی کے لئے کام کرنا چاہتا ہے۔
جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد جب ویسٹر ویلے سے جرمنی کو غیر مستقل نشست ملنے کے امکانات کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے ایک جرمن ضرب المثل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب تک شام نہ ہو جائے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دن کیسا تھا۔ اِسی لئے رائے شماری کے نتائج سامنے آنے تک جرمنی کو غیر مستقل نشست ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم ویسٹر ویلے نے کہا کہ وہ اِس حوالے سے پُر اُمید ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ اِس نشست کے لئے جرمنی کا مقابلہ مضبوط اُمیدوار ملکوں سے ہے لیکن دُنیا جرمنی کے اثر و رسوخ اور اُس کے قابلِ اعتبار ہونے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
جرمنی کے ساتھ ساتھ کینیڈا اور پرتگال نے بھی دو سال دورانیے کی اِس غیر مستقل نشست کے حصول کے لئے درخواست دے رکھی ہے۔ فرانس، روس، امریکہ، چین اور برطانیہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ہیں جبکہ باقی ماندہ دَس غیر مستقل نشستوں میں سے آدھی نشستوں پر مختلف ممالک کا انتخاب ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران خفیہ رائے شماری سے کیا جاتا ہے۔ جرمنی اب تک چار مرتبہ اِس کونسل کا رکن رہ چکا ہے۔ آخری بار جرمنی کو اِس نشست پر کام کرنے کا موقع سن دو ہزار تین اور چار میں ملا تھا۔
ہفتے کے روز اپنے خطاب میں ویسٹرویلے نےسلامتی کونسل کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل میں افریقہ اور لاطینی امریکہ کی مستقل نمائندگی نہ ہونے کی صورت میں اِس کونسل کا موجودہ ڈھانچہ آج کل کی دُنیا کے ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ ایشیا کی بھی اِس کونسل میں موزوں نمائندگی حاصل نہ ہونے کی شکایت بجا ہے۔
ایک عرصے سے اِس بات کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں ممالک کی تقسیم طاقت کے اُس توازن کی عکاسی کرتی ہے، جو سن 1945ء میں تھا۔ جاپان، بھارت اور برازیل کے وُزرائے خارجہ کے ساتھ مل کر ویسٹر ویلے اِس بات کی وکالت کر رہے ہیں کہ کونسل میں توسیع کرتے ہوئے مزید ممالک کو بھی اِس کا مستقل یا غیر مستقل رکن بنایا جانا چاہئے۔
جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ویسٹر ویلے نے تعلیم کو ترقی کی کلید قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل خزانے زمین میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں پوشیدہ ہیں۔ ویسٹر ویلے کے مطابق ’تعلیم امتیازی سلوک اور استحصال کا نشانہ بننے سے بچاتی ہے، تعلیم تعصبات سے بچاتی ہے اور یوں امن کو فروغ دیتی ہے‘۔ اُنہوں نے کہا:’’لیکن تعلیم مصنوعات اور منڈیاں بھی وجود میں لاتی ہے اور یوں خوشحالی کا بھی باعث بنتی ہے۔‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عصمت جبیں