تپ دق سےمتاثرہ ملکوں کی عالمی فہرست میں پاکستان چوتھےنمبر پر
24 مارچ 2016چوبیس مارچ جمعرات کے دن تپ دق کے خلاف آگہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ بیماری کس طرح ایک مریض سے دوسرے کو لگتی ہے، اس میں عام طور پر زیادہ عمل دخل مریضوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کی بے احتیاطی کا ہوتا ہے۔ انہی حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے تپ دق یا ٹی بی کی ایک مریضہ شاہدہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’'میرے شوہر کو کافی عرصے سے ٹی بی کا مرض تھا، میں اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اس طرح میں بھی اس مرض کا شکار ہو گئی مجھے علم نہیں تھا کہ یہ چھوت کی بیماری ہے، ورنہ میں پوری احتیاط کرتی۔‘‘
تپ دق کی کئی اقسام ہیں۔ یہ چھوت کی ایک ایسی بیماری ہے، جو کامیاب علاج نہ ہو سکنے کی صورت میں مہلک ثابت ہوتی ہے۔ بیکٹیریا کی وجہ سے لگنے والی یہ بیماری بنیادی طور پر پھیپھڑوں کا مرض ہے مگر یہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ مریض کے کھانسنے، چھینکنے، تھوکنے یا کسی کے نزدیک بیٹھ کر سانس لینے سے بھی یہ بیماری کسی صحت مند انسان میں منتقل ہو سکتی ہے۔
کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر قاضی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عالمی سطح پر یہ بیماری اتنی عام ہے کہ ہر تیس سیکنڈ بعد ایک انسان ٹی بی کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتا ہے۔ ایسے انسانوں میں سے نصف تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ اس مرض کی بڑی وجوہات آلودہ خوراک، تنگ وتاریک مکانات اور غلاظت کے وہ ڈھیر ہیں جو اس بیماری کے جراثیم کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ ہیلتھ سینٹر کے منتظم ڈاکٹر بدر نوران آفریدی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ پاکستان میں اس مرض کی بنیادی وجہ مریضوں کا اپنا مکمل علاج نہ کروانا ہے۔ ''جب اس مرض کی تشخیص ہو جاتی ہے تو آٹھ ماہ کا کورس مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر مریض چند ماہ بعد ہی یہ علاج نامکمل چھوڑ دیتے ہیں اور دوبارہ تپ دق کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘
ماہرین کے مطابق کمزور قوت مدافعت بھی ٹی بی کی ایک اہم وجہ ہے۔ جن افراد کا طبی مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے، ان کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات عام لوگوں سے کافی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایچ آئی وی وائرس یا ایڈز سے متاثرہ انسانوں کی موت کی وجہ اکثر تپ دق کا یہی مرض بنتا ہے۔
ڈاکٹر آفریدی کے مطابق پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں میں اس مرض کی ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن پرائیویٹ کلینکس میں اس کا علاج بہت مہنگا ہے، جو ہر مریض کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں تپ دق کی ادویات کی مفت فراہمی علاج میں تو بہت مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکنے کا کام بنیادی طور پر عوامی شعور و آگہی کی سطح پر کیا جانا چاہیے۔