یورپ جمہوری تحریکوں کی زیادہ حمایت کرے، نوید کرمانی
13 مارچ 2011جرمن شہر مِنڈن میں ہفتہ کو اظہارِ خیال کرتے ہوئے مشرقی علوم کے 43 سالہ ماہرکرمانی نے کہا کہ یورپ کی سرحدوں سے کچھ ہی دور عرب دُنیا کے یہ مظاہرین جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کی اُنہی مثالی اَقدار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جن پر یورپ کو فخر ہے۔ تاہم عین اِس فیصلہ کن گھڑی میں یورپی یونین کے کچھ رکن ملکوں میں ضروری ’تہذیبی اتفاقِ رائے‘ نظر نہیں آ رہا ہے۔ کرمانی نے اِس سلسلے میں ہنگری کا حوالہ دیا، جہاں اُن کے خیال میں ’پریس کی آزادی کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔‘ ہالینڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کرمانی نے کہا کہ ’وہاں کے سیاستدان کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔‘
اپنے اِس مقالے میں کرمانی نے کہا کہ چند ایک قومی ریاستوں کی جانب سے ’منصوبہ بندی کے ساتھ یورپی اداروں کو کمزور بنانے کا رجحان‘ یورپی یونین کے موجود بحران کی اصل وجہ ہے۔ اُنہوں نے یورپی یونین کے تنظیمی ڈھانچے کو زیادہ جمہوری بنانے پر زور دیا اور کہا کہ موجودہ حالت میں یہ ستائیس رُکنی تنظیم اپنے اندر نئے ممالک کو شامل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔
نوید کرمانی کو اتوار 13 مارچ کو مِنڈن میں ’مسیحی یہودی بھائی چارے کے ہفتے‘ کے آغاز پر بُوبر روزن سوائیگ میڈل 2011ء سے نوازا جا رہا ہے۔ 1968ء میں جاری ہونے والا یہ انعام یہودی النسل فلسفیوں اور ماہر ینِ تعلیم مارٹن بُوبر اور فرانس روزن سوائیگ سے موسوم ہے اور جرمن شہر کولون میں مقیم نوید کرمانی پہلے مسلمان ہیں، جنہیں یہ انعام دیا جا رہا ہے۔ اُنہیں یہ انعام مذہب اسلام کے حوالے سے اُن کی فعال تحقیقی سرگرمیوں اور یہودیت اور مسیحیت کے ساتھ بین المذاہب مکالمت میں اُن کے سرگرم کردار کے اعتراف میں دیا جا رہا ہے۔
نوید کرمانی کے والدین کا تعلق ایران سے ہے تاہم اُن کی پیدائش جرمن شہر زِیگن میں ہوئی۔ اُنہوں نے ڈرامے، فلسفے اور اسلامیات کی تعلیم کولون، بون اور قاہرہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں وہ بون میں پڑھاتے بھی رہے۔ اُن کی اب تک متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں 2001ء کی ’ایران: بچوں کا انقلاب‘ اور ’اسلام کے ساتھ ایک زندگی‘ بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک کتاب میں اُنہوں نے خود کُش بمباروں کو بھی موضوع بنایا تھا۔
اُن کا نیا ناول Dein Name (تمھارا نام) اِس سال موسمِ خزاں میں منظرِ عام پر آ رہا ہے۔ کرمانی کے مطابق اُنہوں نے پانچ چھ برس تک اِس ناول پر کام کیا ہے اور تقریباً تیرہ سو صفحات کے ساتھ یہ کتاب خاصی ضخیم ہو گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل