’ہمارے دکھ میں شریک افراد کا شکرگزار ہوں‘
21 مئی 2018گزشتہ روز ٹیکساس کی ’صابرین‘ نامی مسجد میں سترہ سالہ سبیکہ کی نماز جنازہ کے موقع پر مقامی سیاست دانوں اور ہوسٹن شہر کے میئر سلوسٹر ٹرنر سمیت سیکنڑوں افراد نے شرکت کی۔ کئی افراد نے اس موقع پر امریکا میں اسلحہ خریدنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ صرف ایک خاص عمر سے بڑے افراد کو اسلحہ خریدنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
یہاں موجود چند افراد نے’ فیس ٹائم‘ کے ذریعے سبیکا کے نمازِ جنازہ کو کراچی میں اس کے اہل خانہ کو براہ راست دکھایا۔ اس موقع پر سبیکہ کے والد نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ ہر کوئی بہت دکھی ہے اور سبیکہ کے لیے دعا گو ہے۔ میں ان تمام افراد کا شکر گزار ہوں جو اس وقت پر ہمارے دکھ میں شریک ہیں۔‘‘ نمازِ جنازہ ادا کیے جانے کے بعد ٹیکساس میں پاکستانی قونصل خانے کی جانب سے سبیکہ کی میت کو پاکستان بھجوا دیا گیا ہے۔
ٹیکساس کی اس مسجدمیں موجود ایک شخص ظہیر خان نے بتایا کہ وہ سبیکہ کے اہل خانہ کو قریب سے جانتے ہیں۔ خان کے بقول سترہ سالہ سبیکہ کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ سترہ سالہ انوزا شنواری نے اپنی والدہ کے ساتھ اس نوجوان طالبہ کے جنازے میں شریک ہوئی۔ شنواری کا کہنا تھا کہ ایک ہونہار طالبہ کی ہلاکت پر بہت زیادہ افسردہ ہیں۔
امريکی وزير خارجہ کا سبيکہ کے اہل خانہ کے ليے تعزيتی پيغام
سبيکہ شيخ ان دس افراد ميں شامل تھی، جو امريکی رياست ٹيکساس کے سب سے بڑے شہر ہيوسٹن کے نواح ميں واقع سينٹا فے ہائی اسکول ميں جمعے کے روز ايک سترہ سالہ طالب علم کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ ميں ہلاک ہو گئے تھے۔ شيخ ايکسچينج پروگرام کے تحت امريکا ميں زير تعليم تھيں اور عنقريب عيد الفطر کے موقع پر وطن واپس لوٹنے والی تھيں۔ سبيکہ کا تعلق پاکستان کے جنوبی شہر کراچی سے تھا اور وہ امريکی محکمہ خارجہ کے زير انتظام اس پروگرام کے ذريعے گزشتہ برس امريکا گئی تھيں۔
دوسری جانب اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کی آخری رسومات کے لیے کئی افراد شہر کے ایک گرجا گھر میں بھی شریک ہوئے۔ سينٹا فے ہائی اسکول کے صدر نے اس موقع پر کہا،’’ جو جگہ محفوظ ہونی چاہیے تھی وہ محفوظ نہ رہی۔‘‘
کلیسا اور مسجد میں طلباء کی آخری رسومات ادا کرنے کا طریقہ مختلف تھا لیکن سب کا دکھ ایک جیسا تھا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ درس گاہیں ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بن گئیں۔
ب ج/ ع ا (روئٹرز)