1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلوبل میڈیا فورم کا اختتام

بینش جاوید15 جون 2016

ڈوئچے ویلے کے زیر اہتمام ’گلوبل میڈیا فورم‘ آج بدھ کے روز ختم ہو گیا ہے۔ آخری دن اختتامی تقریب کےعلاوہ کئی دیگر سیمینارز میں سے ایک اہم مباحثہ ’خواتین پر تشدد کی روک تھام میں میڈیا کا کردار‘ کو خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔

https://p.dw.com/p/1J6yG
Gender-Panel: Can media help to prevent violence against women and girls?
تصویر: DW/M. Müller

خواتین پر تشدد، میڈیا کا کردار

اس خصوصی سمینیار میں میڈیا اور خواتین کے حقوق کے سرگرم کارکنوں نے شرکت کی ۔ اس موقع پر خواتین کے حقوق کے لیے جرمنی میں سرگرم کارکن کرسٹینا نے مباحثے میں سکائپ کے ذریعے شرکت کی۔ انہوں نے کہا،’’ جرمنی میں سبب جگہ یعنی انٹرنیٹ، اخبارات یا ٹی وی پر ایک عورت کو جنس کے تناظر میں دکھایا جاتا ہے، اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سے عورت کو ایک کم تر حیثیت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ کرسٹینا نے کہا کہ برطانوی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ بھی واضح کیا گیا کہ خواتین کو صرف سیکس سمبل کے طور پر دکھانے کی وجہ سے ان پر جنسی حملوں اور حراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

جرمنی میں ہی خواتین کے حقوق کے سرگرم کارکن اور مصنف وینسنٹ ایمانیول نے اس موقع پر کہا، ’’میڈیا پر خواتین کو ایک خاص طرح سے دکھانے سے ہم خواتین کے معیار کو خود ہی کم کر رہے ہیں، مردوں کو بھی آگے بڑھتے ہوئے، میڈیا پر خواتین کے صرف جنسی تشخص کے خاتمے کے لیے عملی کاوشیں کرنا ہوں گی۔‘‘

Gender-Panel: Can media help to prevent violence against women and girls?
مصر میں میڈیا خواتین پر تشدد کے واقعات کو انتہائی کم کوریج دیتا ہے اور تشدد کے لیے سخت الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہےتصویر: DW/M. Müller

مشرق وسطیٰ کے اہم ملک مصر کی ’فیوچر یونیورسٹی‘ کی پروفیسر راشا الایباری نے بتایا کہ مصر میں خواتین کو سٹرکوں پر ہراساں کرنے کی شرح 90 فیصد ہے ، کمیونٹی تشدد 53 فیصد اور گھریلو تشدد کی شرح 20 فیصد ہے۔ راشا کا کہنا ہے، ’’ مصر میں میڈیا خواتین پر تشدد کے واقعات کو انتہائی کم کوریج دیتا ہے اور تشدد کے لیے سخت الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔‘‘ الابیاری کے مطابق مصری میڈیا جنسی زیادتی یا ’ریپ‘ کے لیے ’ہراساں‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے اور ہراساں کرنے کے لیے محض ’چھیڑچھاڑ‘ کی ترکیب مستعمل ہے پر تکیہ کیا جاتا ہے۔

مثالی اقدام

سینیمار کے دوران بتایا گیا کہ جرمن حکومت کے امدادی ادارے ’جی آئی زیڈ‘ نے بولیویا کی وزارت برائے مواصلات اور 200 سے زائد میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ مل کر ایک ضابط اخلاق مرتب کیا۔ اِس ضابطًہٴ اخلاق میں خواتین پر تشدد اور خواتین کے دیگر مسائل پر رپورٹنگ کرنے کے موضوعات شامل ہیں۔ اس موقع پر جی آئی زیڈ سے وابستہ کرسٹینا برینڈل نے بتایا، ’’ اس ضابطہ اخلاق بنانے کے بعد اب میڈیا خواتین کی مجموعی حوصلہ افزائی کے علاوہ ایسی خواتین کو قائل کر رہا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو برداشت کرنے کے بجائے ہمت پکڑتے ہوئے پولیس کو رپورٹ کریں۔‘‘

Gender-Panel: Can media help to prevent violence against women and girls?
تصویر: DW/M. Müller

اس موقع پر موجود بنگلہ دیش کی ایک خاتون نے بتایا کہ سول سوسائٹی اور غیر سرکاری تنظیموں کی بھر پور کوشش سے اب بنگلہ دیش میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا قانون بنا لیا گیا ہے۔

کرسٹینا نے سکائپ کال کے ذریعے بتایا کہ جرمنی میں ہر چوتھی خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں ریپ سے متعلق قانون میں رد و بدل وقت کی ضرورت ہے اور انہوں نے ’نو مینز نو‘ کی مہم چلا رکھی ہے اور انہیں امید ہے کہ جلد ریپ سے متعلق قانون میں ترمیم کر دی جائے گی۔

کیا اقدامات اٹھائے جائیں؟

پروفیسر راشا نے تجاویز دیں کہ میڈیا کو صرف ایک واقعہ پر رپورٹ نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر ایک عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ کن اداروں سے مدد حاصل کر سکتی ہے۔ میڈیا کو متاثرہ خاتون کے کردار پر شک کرنے اور اس کے لباس پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کی مذمت کرنی چاہیے۔

وینسنٹ نے کہا کہ میڈیا کو ایسی دردناک کہانیاں نہیں دکھانی چاہیے جس میں عورت ایک مظلوم انسان کے طور پر دکھائی جائے بلکہ ایسے واقعات بھی رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے جہاں عورتوں نے بہادری اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہوا ہو۔

GMF 66 | Closing Ceremony Publikum
گلوبل میڈیا فورم میں پاکستان سمیت ایک سو ملکوں کے تقریباً دو ہزار مندوبین نے شرکت کیتصویر: DW/M. Müller

دنیا کے مختلف ممالک سے آئے صحافیوں اور ماہرین نے جرمن شہر بون میں منعقدہ گلوبل میڈیا فورم میں آزادی صحافت، جمہوریت، سیاسی حقوق، مہاجرین کے بحران اور کئی دوسرے دلچسپ موضوعات پر تعمیری بحث میں حصہ لیا۔ ڈی ڈبلیو کے زیر اہتمام اس نوویں میڈیا فورم میں پاکستان سمیت ایک سو ملکوں کے تقریباً دو ہزار مندوبین نے شرکت کی۔