1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا نریندر مودی کشمیر میں ناکام ہو گئے؟

4 اپریل 2018

بھارتی زیر انتظام کشمیر ایک بار پھر تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ پاکستان اس علاقے میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ مودی کی پالیسی ہے۔

https://p.dw.com/p/2vUbO
Indien Kämpfe in Kaschmir
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

بھارتی زیر انتظام کشمیر سکیورٹی کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ مقامی حکومت نے علاقائی دارالحکومت سری نگر اور اس وادی کے کئی دیگر حصوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ کشمیری علیحدگی پسندوں نے پیر تین اپریل کو ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ یہ ہڑتال جھڑپوں کے دوران کم از کم 20 افراد کی ہلاکت جبکہ 200 سے زائد کے زخمی ہونے پر کیا گیا تھا۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر کے شمالی حصے میں اتوار کے روز ہونے والی مسلح جھڑپ کے نتیجے میں  13 عسکریت پسند جبکہ تین بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس فوجی آپریشن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کشمیریوں پر بھارتی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں چار عام شہری مارے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔

Belgien Brüssel nach Anschlag - Besuch Narendra Modi - Protest
’’مودی کی یہ جارحانہ کشمیر پالیسی دراصل ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بحیثیت مجموعی خیالات کا نتیجہ ہے۔‘‘تصویر: Reuters/Y. Herman

جولائی 2016ء میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ وانی کی ہلاکت کے فوری بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران بھارتی فوج اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ایک سو زائد کمشیری مارے گئے تھے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر کی آبادی 12 ملین کے قریب ہے جس میں 70 فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ اس خطے میں 1989ء سے مسلم علیحدگی پسند بھارتی فورسز کے ساتھ لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس دوران ہزارہا کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔ بھارت اور پاکستان 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد سے اب تک اس علاقے کے تنازعے پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔

بھارتی حکومت پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ کشمیری علیحدگی پسندوں کی تربیت کر کے اور  انہیں مسلح کر کے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھیجتا ہے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جاتی ہے۔

بھارتی انسانی حقوق کے کارکنوں اپنی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرے تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان علیحدگی پسندوں کے خلاف اور زیادہ طاقت کا استعمال کرے گی کیونکہ یہ پاکستانی حمایت یافتہ عسکریت پسندی ہے۔

بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس بہت سے کشمیری حامی علیحدگی پسندوں کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں اور وہ اس خطے میں بھارتی اقتدار اور وہاں جاری فوجی آپریشن کے خلاف احتجاج میں شریک ہوتے ہیں۔

برسلز میں قائم غیر سرکاری تنظیم کشمیر کونسل کے چیئر مین علی رضا سید کے مطابق، ’’بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کمشیر کے حوالے سے حکمت عملی دو چیزوں پر مبنی ہے: کمشیر کی تعمیر ترقی کے لیے مالی امداد اور ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کے خلاف طاقت کا استعمال۔ یہ پالیسی کامیاب نہیں رہی کیونکہ اس ریاست میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران ریاستی حکومت اور نئی دہلی حکومت کی مخالفت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ طاقت کا استعمال نہیں چل سکتا۔‘‘

علی رضا سید کے مطابق، ’’مودی کی یہ جارحانہ کشمیر پالیسی دراصل ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بحیثیت مجموعی خیالات کا نتیجہ ہے۔‘‘

لیکن برسلز میں قائم ساؤتھ ایشیا ڈیویلپمنٹ فورم (SADF) کے ڈائریکٹر ریسرچ زیگفرائیڈ او وولف کا خیال ہے کہ مودی کشمیر میں مسلسل بڑھتے ہوئے جہادی ازم کے باعث وہاں اپنے سماجی اور اقتصادی ایجنڈا پر کامیابی سے عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہوئے۔

کشمیر میں جاری تشدد کی لہر میں کشمیری نوجوان اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق کشمیر میں مردوں کی کُل آبادی کا 60 فیصد 30 برس سے کم عمر افراد پر مبنی ہے جبکہ 35 برس سے کم عمر مردوں کی تعداد 70 فیصد بنتی ہے۔

سری نگر میں پولیٹیکل سائنس کے استاد آر کے بھٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ریاست ان نوجوانوں کو مصروف رکھنے کے لیے مناسب تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بے روزگاری کے علاوہ سیاسی حل نکالے کی کوششوں پر کام کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ جہادی گروپ کشمیری نوجوانوں کو درپیش اس صورتحال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ بھارت سے علیحدگی کی تحریک مسلسل اسلامی شدت پسندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

Indien Pakistan Tote nach Angriff auf indisches Militärlager
مبصرین کے خیال میں مستقبل قریب میں کشمیر کے حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand

اگینیئشکا کوزسیوسکا کراکاؤ میں قائم Jagiellonian یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں اور کشمیر سے متعلق معاملات کے ماہر۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’سکیورٹی فورسز کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر محاسبہ کیا جانا چاہیے تاہم کشمیری عوام کا ریاستوں اداروں پر اعتماد بحال ہو۔ مذہب پر مبنی قومیت پرستی میں اضافہ بھی ایک پریشان کن پیشرفت ہے۔ خاص طور پر ایسے کشمیری علاقوں میں جہاں مذہبی حوالے سے تنوع موجود ہے۔ یہ اہم ہے کہ اس رحجان سے نمٹا جائے۔‘‘

کشمیر کے معاملات پر نظر رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کے خیال میں مستقبل قریب میں کشمیر کے حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف سختی سے نمٹنے کی بھارتی حکمت عملی کسی حد تک کام کر چکی ہے تاہم نئی دہلی کو جلد یا بدیر اس بحران کا کوئی سیاسی حل ہی تلاش کرنا ہو گا۔

خواتین کے بال کاٹنے کے واقعات، خوف وہراس کا سبب

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید