ڈوپنگ کے خلاف سخت جرمن قانون نافذ، دس سال تک سزائے قید
18 دسمبر 2015وفاقی دارالحکومت برلن سے جمعہ اٹھارہ دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق آج بروز جمعہ سے نافذالعمل ہونے والے اس قانون کی منظوری پہلے جرمن ایوان زیریں بنڈس ٹاگ اور پھر ایوان بالا بنڈس راٹ نے دی تھی، جس کے بعد جرمن صدر یوآخم گاؤک نے اس قانون پر دستخط بھی کر دیے تھے۔
جرمنی میں کھیلوں کا شعبہ وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کے وزارتی قلمدان کا حصہ ہے، جنہوں نے اس بارے میں ڈی پی اے کو بتایا، ’’اس قانون کی تیاری اور نفاذ کافی عرصے سے ضروری ہو چکے تھے۔ اب کئی اہم قانونی شقیں نافذالعمل ہو گئی ہیں۔‘‘
تھوماس ڈے میزیئر نے مزید کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ اس نئے اور سخت تر قانون کے ساتھ ہم کھیلوں کے شعبے میں ڈوپنگ اور اس کے پیچھے کارفرما مجرمانہ ڈھانچوں کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ جرمن وزیر داخلہ کے مطابق، ’’یہ قانون صاف ستھرے اور منصفانہ کھیلوں کے لیے جرمنی کے واضح عزم اور پختہ ارادے کا مظہر ہے۔‘‘
اس قانون کے تحت جو کھلاڑی ڈوپنگ کرتے ہیں یا اپنی کارکردگی بڑھانے کے لیے ممنوعہ ادویات کے استعمال کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان پر نہ صرف پابندیاں لگائی جا سکیں گی، بلکہ ان کے خلاف جرمن عدالتوں میں قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں ایک سال سے لے کر تین سال تک قید کی سزائیں بھی سنائی جا سکیں گی۔
اس کے علاوہ جو سپورٹس آفیشلز یا ممنوعہ ادویات کی فراہمی اور ان سے متعلق طبی نسخوں لکھنے کا کام کرنے والے افراد یا طبی اہلکار اس جرم کے مرتکب پائے گئے، انہیں شدید نوعیت کے واقعات میں دس سال تک کے لیے جیل جانا پڑے گا۔
جرمنی میں یہ قانون اور اس کا نفاذ سول قوانین کے شعبے میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے۔ اس سے پہلے ڈوپنگ کی روک تھام کا کام کھیلوں کے نگران ادارے اور قومی سطح کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کرتے تھے۔
اس بارے میں اولمپک کھیلوں کی جرمن تنظیموں کی قومی فیڈریشن DOSB نے نئے قانون کے نفاذ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کھیلوں کے شعبوں میں متعلقہ تنظیموں کی کلی عملداری کے حوالے سے ان کی آزادی اور خود مختاری سے متصادم ہے۔
اس کے برعکس وفاقی جرمن وزیر قانون ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ اس قانون کا نفاذ اس لیے لازمی ہو گیا تھا کہ اس سلسلے میں صرف کھیلوں کی نگران قومی تنظیموں کی عمل داری کھلاڑیوں کو ڈوپنگ سے روکنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی تھی۔