پاکستانی خاندان نے طالبان کی مدد کے الزامات ردّ کر دیے
16 مئی 2011اتوار کو ضلع سوات کی تحصیل کبل میں اپنی رہائش گاہ پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آمنہ بی بی اور ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ان کے اہلخانہ کی گرفتاری ان کے لیے باعث حیرت ہے۔
عالم زیب اور ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بھیجی گئی رقم سے سوات آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی مدد کی گئی تھی۔
آمنہ بی بی نے بتایا کہ اُن کے والد امریکی ریاست فلوریڈا میں گزشتہ 17 سال سے مقیم ہیں اور وہ ان سے ملنے پانچ برس قبل وہاں گئی تھیں۔ فرسٹ ائیر کے طالب علم عالم زیب کا خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور امریکی الزامات بے بنیاد ہیں۔
عالم زیب کے مطابق ان کے نانا کی طرف سے بھیجی گئی رقوم سے انہوں نے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کی تھی، جن کے گھر سوات جنگ کے دوران تباہ ہو گئے تھے، ’گرفتاری سے پہلے امریکی حکام کو سراغ لگانا چاہیے تھا کہ رقم کدھر گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ رقم مدرسے کی تعمیر نو کے لیے بھی خرچ کی گئی تھی۔ عالم زیب کے مطابق پاکستانی حکام کی طرف سے ان کی والدہ آمنہ بی بی اور دوست علی رحمان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
امریکہ کی طرف سے ان تمام افراد پر بیرون ملک قتل، اغوا اور پاکستانی طالبان کو مالی مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔ واشنگٹن حکومت پاکستانی طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔ ایف بی آئی حکام کا کہنا تھا کہ یہ چھ افراد کا نیٹ ورک تھا اور رقوم بھیجنے کا مقصد طالبان کو ہتھیار خریدنے میں مالی مدد فراہم کرنا تھا۔ اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو کم از کم 15 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
76 سالہ محمد حافظ شیر علی خان اور ان کے 24 سالہ بیٹے اظہر خان کو جنوبی فلوریڈا میں گرفتار کیا گیا تھا،جب وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے۔ حافظ شیر علی خان میامی میں ایک مسجد کے امام ہیں۔ شیر علی خان کے بڑے بیٹے عرفان خان کو لاس اینجلس میں ایک ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ عرفان خان کی عمر 37 برس ہے اور وہ فلوریڈا کی ایک مسجد میں امام ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل